Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرمایہ کاری بانڈ: بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے منافع کا ذریعہ

بیرون ملک پاکستانی مجموعی طور پر ماہانہ دو ارب ڈالر سے زائد ترسیلات زر پاکستان بھیجتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کے ذریعے آٹھ ماہ میں مجموعی سرمایہ کاری کا حجم ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ترجمان کے مطابق ’اس میں سے ساڑھے چھ سو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری نیا پاکستان سرٹیفکیٹ میں کی گئی ہے۔‘
وزارت سمندر پار پاکستانیز کے اعداد و شمار کے مطابق تقریبا 86 لاکھ پاکستانی بیرون ملک مقیم ہیں۔ یہ پاکستانی مجموعی طور پر ماہانہ دو ارب ڈالر سے زائد ترسیلات زر پاکستان بھیجتے ہیں۔
بیرون ملک پاکستانیوں کا ہمیشہ سے شکوہ رہا ہے کہ زرمبادلہ کے لیے ترسیلات زر دوسرا بڑا ذریعہ ہونے کے باجود انھیں ملک میں سرمایہ کاری کے لیے مناسب پلیٹ فارم میسر نہیں آتا۔ مجبوراً رئیل سٹیٹ سیکٹر بچ جاتا ہے جہاں اکثر اوقات فراڈ اور دھوکا ہی ملتا ہے۔
پاکستان کی موجودہ حکومت نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرنے کے لیے روشن ڈیجیٹل اکاونٹس کے ذریعے سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ رئیل سٹیٹ، فکس انوسٹمنٹ، سٹاک ایکسچینج اور بانڈز یا سرٹیفکیٹس میں سرمایہ کاری سمیت دیگر جگہوں پر سرمایہ کاری کی سہولت دی گئی ہے جبکہ ٹیکس مراعات بھی متعارف کرائی گئی ہیں۔
ماضی کے برعکس بیرون ملک مقیم پاکستانی اب سرمایہ کاری بانڈز یا سرٹیفکیٹس میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔

روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کے ذریعے مجموعی سرمایہ کاری کا حجم ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔ (فوٹو: سٹیٹ بینک)

کسی بھی ملک یا خود مختار ادارے کو بڑے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ مارکیٹ میں بانڈز کا اجرا کرتا ہے۔ ان بانڈز کے ذریعے وہ سرمایہ کاروں سے مخصوص مدت کے لیے مخصوص شرح منافع پر قرض لیتا ہے اور اس کے بدلے میں انھیں ایک سرٹیفکیٹ یا رسید جاری کی جاتی ہے۔
پاکستان کی وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک آف پاکستان بھی ملک میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنے کے لیے یورو اور سکوک بانڈز جاری کرتے ہیں۔
ان بانڈز کے اجرا کا اپنا طریقہ کار ہے اور عالمی مارکیٹ میں ان کا اپنا کاروبار ہوتا ہے۔ وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق عالمی سرمایہ کار ہی ان بانڈز میں سرمایہ کاری کرتے ہیں کیونکہ یہ عموما پانچ سے 30 سال تک کی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔
وزارت خزانہ نے حال ہی میں تین سال کے وقفے کے بعد یورو بانڈز کا اجرا کیا ہے جس میں پاکستان کو دو اعشاریہ پانچ ارب ڈالر ملے ہیں۔ جس سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 23 اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ ان یورو بانڈز پر چھ فیصد ، 7.375 فیصد اور 8.875 فیصد منافع دیا جائے گا۔
وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق عالمی مارکیٹ میں جب بھی بانڈز جاری کیے جاتے ہیں ہر دفعہ ان کے لیے الگ شرائط ہوتی ہیں۔ عموماً بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ان میں سرمایہ کاری کی اجازت ہوتی ہے۔ وہ بیرون ملک کمپنیاں یا افراد کا کنسورشیم بنا کر سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔

وزارت سمندر پار پاکستانیز کے اعداد و شمار کے مطابق تقریبا 86 لاکھ پاکستانی بیرون ملک مقیم ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ترجمان عابد قمر کا کہنا ہے کہ ’ان بانڈز کے ذریعے جب سرمایہ کاری آتی ہے تو اس کو اس انداز سے تقسیم کرنا کہ اس میں کسی بیرون ملک مقیم پاکستانی نے سرمایہ کاری کی ہے یا نہیں ممکن نہیں۔‘
 انھوں نے بتایا کہ ’بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے ملک میں سرمایہ کاری کے لیے خصوصی بانڈز یا سرٹیفیکیٹس پر مبنی سرمایہ کاری سکیمیں ضرور متعارف کرائی جاتی ہیں۔‘
اس وقت بھی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے نیا پاکستان سرٹیفیکیٹ کی سکیم جاری ہے جس میں بیرون ملک مقیم پاکستانی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

نیا پاکستان سرٹیفکیٹ کیا ہے؟

پاکستان کی وفاقی حکومت نے نیا پاکستان سرٹیفکیٹ امریکی ڈالر، یورو، پاونڈ اور پاکستانی روپے میں جاری کیے ہیں۔ نیا پاکستان سرٹیفکیٹس پر مختلف معیادوں کے لیے خطرے سے پاک پُرکشش منافع کی پیشکش کی جاتی ہے۔
یہ سرٹیفکیٹس روایتی اور شریعت سے ہم آہنگ دونوں شکلوں میں دستیاب ہیں۔
اسلامک نیا پاکستان سرٹیفکیٹس مضاربہ کی بنیاد پر ہیں جس میں سرمایہ کار ایک مضاربہ پول میں رقم لگاتا ہے جسے وفاقی حکومت کو فنانسنگ فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ سرمایہ کاری کی آمدنی اس پول سے کمائے گئے منافع سے ہوتی ہے۔
اس مقصد کے لیے وفاقی حکومت نے ایک خصوصی اسلامک نیا پاکستان سرٹیفیکیٹ کمپنی لمیٹڈ تشکیل دی ہے۔ یہ کمپنی اپنے بورڈ کے مینڈیٹ کی بنیاد پر سٹیٹ بینک آف پاکستان میں قائم کی گئی ہے اور اس کا انتظام بھی سٹیٹ بینک کے پاس ہے۔
چونکہ اسلامک نیا پاکستان سرٹیفکیٹس ڈالر، برطانوی پاؤنڈ، یورو اور پاکستانی روپے میں دستیاب ہیں اس لیے کمپنی متعلقہ کرنسیوں یعنی ڈالر، برطانوی پاؤنڈ، یورو اور پاکستانی روپے کے لیے الگ الگ مضاربہ پولز رکھتی ہے۔

حکومت نے سنہ 2019 میں پاکستان بناؤ سرٹیفیکیٹ کا اجرا کیا تھا لیکن اسے کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی۔ (فوٹو: سٹیٹ بینک)

نیا پاکستان سرٹیفکیٹ میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ساتھ پاکستان میں مقیم افراد بھی سرمایہ کاری کرسکتے ہیں، جنھوں نے اپنے ٹیکس گوشواروں میں بیرون ملک جائیدادیں ڈیکلیئر کر رکھی ہیں۔
یہ سرٹیفکیٹ تین ماہ، چھ ماہ، ایک سال، تین سال، اور پانچ سال کی مدت کے لیے جاری کیے جا رہے ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو نیا پاکستان سرٹیفیکیٹ میں سرمایہ کاری کرتے وقت تمام اقسام کے ٹیکسوں سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔ تاہم اس سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے منافع پر 10 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔
ترجمان سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ ’اب تک اس سکیم کے تحت ساڑھے چھ سو ملین ڈالر سرمایہ کاری کی جا چکی ہے اور مزید پاکستانی اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔‘
’روشن ڈیجیٹل اکاونٹس کی وجہ سے سرمایہ کاری میں آسانی بھی ہوئی ہے جس کے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔‘
یاد رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے سنہ 2019 میں ڈالر بانڈ اور پاکستان بناؤ سرٹیفیکیٹ کا اجرا بھی کیا تھا۔ ان سرٹیفکیٹس کا مقصد ڈالرز کو ملکی خزانے میں لا کر زرمبادلہ کے ذخائر کو استحکام دینا تھا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان سرٹیفکیٹس کو کوئی خاص پذیرائی نہ ملی اور صرف 26 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ہی حاصل ہو پائی۔ اس سکیم میں بیرونِ ملک مقیم 86 لاکھ پاکستانیوں میں سے صرف 600 نے دلچسپی ظاہر کی تھی۔
اس حوالے سے سٹیٹ بینک کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان بناؤ سرٹیفیکیٹ سکیم ختم ہو چکی ہے تاہم اس میں کی گئی سرمایہ کاری کو اس وقت اعلان کی گئی شرائط اور مراعات کے تحت جاری رکھا جائے گا اور وہ اپنی مقررہ مدت کے ساتھ ہی میچور ہو گی۔‘
پاکستان بناؤ سرٹیفکیٹ میں تین سال کے لیے 6.25 فیصد اور پانچ سال کے لیے 6.75 فیصد منافع کی شرح رکھی گئی تھی جو مغربی ملکوں سے تقریباً دگنی ہے۔ سرمایہ کاری کرنے والوں کے بینک اکاونٹس میں منافع کی رقم سال میں 2 مرتبہ منتقل کی جائے گی۔
معاشی ماہر ساجد امین کے مطابق ’ماضی میں بانڈز یا سرٹیفکیٹ یا بیرون ملک پاکستانیوں کا بڑا سرمایہ وطن لانے کی کوئی سکیم اس وجہ سے کامیاب نہیں ہو سکی کہ اس کی مناسب مارکیٹنگ نہیں کی گئی۔ اسی طرح ان سکیموں میں بڑے سرمایہ کاروں کے لیے مواقع تو موجود ہوتے تھے لیکن بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے مواقع نہیں تھے۔‘

شیئر: