Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں کورونا ویکسین نہ لگوانے والوں کو مستقبل میں کن مشکلات کا سامنا؟

ڈاکٹر فیصل کے مطابق ’ویکسین کی شرط عائد کرنے کا معاملہ حکومتی سطح پر زیر بحث ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)
سعودی عرب، برطانیہ اور امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک نے فضائی سفر، مقامی دفاتر، تعلیمی اداروں اور تفریحی تقریبات اور دیگر سہولیات سے فائدہ اٹھانے کے لیے کورونا ویکسین لگوانے کی شرط عائد کر دی ہے۔
اس کے بعد پاکستان نے بھی مستقبل قریب میں مختلف دفاتر میں کام کرنے والوں اور مختلف سہولیات سے مستفید ہونے کے لیے لازمی ویکسین لگوانے کی شرط عائد کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔
اردو نیوز کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے بتایا کہ ’بین الاقوامی سفر، نجی و سرکاری دفاتر میں کام کرنے والوں، تعلیمی اداروں کے سٹاف اور دیگر سہولیات سے فائدہ اٹھانے کے لیے ویکسین کی شرط عائد کرنے کا معاملہ حکومتی سطح پر تیزی سے زیر بحث ہے۔ اس حوالے سے مختلف صورت احوال کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔‘

 

ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’حکومت کی پوری کوشش ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو سکے تمام آبادی کو ویکسین لگائی جائے۔‘
’یہی وجہ ہے کہ اب 30 سے 40 سال کی عمر کے افراد کی رجسٹریشن بھی شروع کر دی گئی ہے۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ لوگ اپنے آپ کو رجسٹر کرائیں، اپنے خاندان اور گلی محلے کے لوگوں کو ویکسین لگوانے کے لیے تیار کریں۔‘
خیال رہے کہ این سی او سی کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مجموعی طور پر اب تک 38 لاکھ 36 ہزار سے زائد ویکسین کی خوراکیں لگائی جا چکی ہیں جن میں سے 19 لاکھ 66 ہزار افراد کو ایک جبکہ نو لاکھ 64 ہزار افراد کو دونوں خوراکیں لگائی گئی ہیں۔
اس حوالے سے وزیراعظم کے معاون خصوصی کا کہنا ہے کہ ’مزید ویکسین کا انتظام کیا جا رہا ہے اور جیسے جیسے ویکسین لگوانے کے حوالے سے لوگوں کا رجحان بڑھتا جائے گا ویکسین کی ترسیل ہوتی جائے گی۔‘
مختلف سہولیات سے فائدہ اٹھانے کے لیے شہریوں پر ویکسین لگوانے کی شرط عائد کرنا کتنا ضروری ہے اس بارے میں اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر رانا جواد اصغر نے کہا کہ ’حکومت کو چاہیے کہ اس کا آغاز اپنی وزارتوں سے کرے۔‘

پاکستان میں اب تک 38 لاکھ 36 ہزار سے زائد افراد کو ویکسین کی خوراکیں لگائی جا چکی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’تمام ایسے شعبے جہاں لوگوں کو دفاتر کے اندر کام کرنا پڑتا ہے جیسے سرکاری دفاتر، بڑی بڑی عمارتوں میں قائم دفاتر جہاں وینٹی لیشن کم ہے حکومت کو چاہیے کہ تمام ملازمین پر دفتر حاضری کے لیے ویکسین کی شرط عائد کر دے۔‘
 ڈاکٹر رانا جواد اصغر کے مطابق ’خطرہ وہیں ہے جہاں لوگ بند کمروں میں کام کرتے ہیں۔ باہر کھلی دکان پر کام کرنے والے کو اتنا خطرہ نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ویکسین کی دستیابی یقینی بنانے اور لگوانے کو لازمی قرار دینا پڑے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن ممالک نے ویکسین کو ترجیح دی ہے وہاں کورونا کیسز کم ہوگئے ہیں۔‘
 ’نیو یارک میں جہاں بہت زیادہ بیماری پھیلی ہوئی تھی اب کورونا مثبت آنے کی شرح صرف ایک فیصد تک آگئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اچھے طریقے سے ویکسین لگانے سے آپ اپنی آبادی کو بیماری اور اموات سے بچا سکتے ہیں۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ ’ویکسینیشن سے نیویارک میں اب کورونا مثبت آنے کی شرح صرف ایک فیصد تک آگئی ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق ’اب حکومت پر منحصر ہے کہ وہ کس چیز کو ترجیح دیتی ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی حکومت صحت اور تعلیم پر  توجہ نہیں دیتی۔ اس بیماری کے بعد یہ بات سمجھ آ جانی چاہیے کہ صحت پر سرمایہ کاری قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔‘
ڈاکٹر رانا جواد اصغر کہتے ہیں کہ اگر آپ کی ساری آبادی بیماری کا شکار ہوگئی تو آپ کا اسلحہ کسی کام کا نہیں ہوتا۔ اس لیے اب حکومت کو چاہیے کہ ایک سال سے کم مدت میں اپنی آبادی کی اکثریت کو کورونا ویکسین لازمی لگائے۔‘
’اس کے لیے ویکسین خریدنے کے علاوہ اسے لگانے کے لیے تمام وسائل کے ساتھ ساتھ معاشرتی شعور اجاگر کرنے اور میکانزم بہتر بنانے پر توجہ دے۔‘
خیال رہے کہ سعودی حکومت نے سرکاری و نجی اداروں، سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، تقریبات و تجارتی سرگرمیوں میں شرکت کے لیے ویکسین لگوانا ضروری قرار دے دیا ہے۔

سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور عملے کے لیے بھی ویکسین لگوانا لازمی ہوگا (فوٹو: روئٹرز)

سعودی عرب میں تعلیمی عملے، پیشہ ورانہ و تکنیکی تربیت کے اداروں میں حاضری، سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور عملے کے لیے بھی ویکسین لگوانا لازمی ہوگا۔ فیصلے پر عمل درآمد یکم اگست سے ہوگا۔
اسی طرح رواں برس حج کے لیے جانے والوں کے لیے ویکسین لازمی قرار دے دی گئی ہے۔
چین دنیا کا پہلا وائرس پاسپورٹ بن چکا ہے جس پر شہریوں کی ویکسین کا سٹیٹس موجود ہوگا جبکہ امریکہ برطانیہ اور یورپی یونین بھی اسی طرح کے سرٹیفیکیٹس یا پرمٹ جاری کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

شیئر: