Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کورونا کی شروعات پر سیاست تحقیقات کو متاثر کرے گی‘

بائیڈن انتظامیہ اس سے قبل وائرس کے پھیلاؤ کو قدرتی عمل مانتی رہی ہے (فوٹو: عرب نیوز)
امریکہ میں چینی سفارتخانے نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے مقام آغاز کے حوالے سے سیاست وبا سے متعلق چھان بین کے عمل اور وبا پر قابو پانے کی عالمی کوششوں کو متاثر کرے گا۔
چینی سفارتخانے کی جانب سے یہ ردعمل امریکی صدر جوبائیڈن کے اس حکم کے بعد سامنے آیا ہے جس میں وائرس کے مقام آغاز یا اوریجن کے تعین سے متعلق انٹیلیجنس معلومات کے جائزے کا حکم دیا گیا تھا۔
واشنگٹن میں چینی سفارتخانے نے اپنی ویب سائٹ پر جاری بیان میں کہا ہے کہ ’کچھ سیاسی قوتیں الزامات اور سیاسی اقدامات تک محدود ہو چکی ہیں‘۔
برطانوی خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کورونا وائرس کے مقام آغاز کی تلاش کے لیے مطالعے کے دوسرے دور کی تیاری کر رہا ہے۔ ایسے میں چین پر دباؤ ہے کہ وہ محقیقین کو مزید رسائی مہیا کرے تاکہ اس الزام کا جائزہ لیا جا سکے کہ کیا وائرس ووہان میں کورونا وائرس پر تحقیق کے لیے مختص لیبارٹری سے لیک ہوا ہے یا نہیں۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے امریکی انٹیلی جنس حکام کو ہدایت کی ہے کہ کورونا وبا کا باعث بننے والی جگہ کی تلاش کی کوششیں مزید بڑھائی جائیں۔
اس دوران تحقیقات کے کسی چینی لیبارٹری تک پہنچنے کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا گیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق کئی مہینوں تک اس بات سے زیادہ متفق دکھائی نہ دینے والی بائیڈن انتظامیہ اس عالمی دباؤ کا حصہ بن رہی ہے جس میں چین سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ وبا کے آغاز کے متعلق مزید معلومات عام کرے۔
ریپبلکنز کی جانب سے یہ شکایت کی جا رہی تھی کہ امریکی صدر مبینہ رکاوٹوں کے حوالے سے چین سے متعلق سختی نہیں کر رہے ہیں۔
بائیڈن کی جانب سے امریکی انٹیلی جنس اداروں کو کہا گیا ہے کہ وہ 90 روز میں معاملے پر رپورٹ پیش کریں۔

امریکی صدر نے انٹیلیجنس حکام کو ہدایت کی کہ کورونا وبا کا باعث بننے والی جگہ کی تلاش کی کوششیں بڑھائی جائیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے امریکہ کی قومی لیبارٹریوں کو بھی ہدایت کی ہے کہ انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ تعاون کریں تا کہ چینی حکومت سے پوچھنے کے لیے معین سوالات مرتب کیے جا سکیں۔
امریکی صدر نے چین سے مطالبہ کیا کہ وہ وبا کے مرکز کا جائزہ لینے کے لیے عالمی کوششوں سے تعاون کرے۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت ریپبلکنز اس خیال کو فروغ دیتے رہے ہیں کہ کورونا وائرس کسی قدرتی وجہ کے بجائے ووہان، چین کی لیبارٹری میں حادثے کے نتیجے میں سامنے آیا ہے۔
جوبائیڈن کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ انٹیلی جنس اداروں نے دونوں امکانات کا مشترک جائزہ لیا لیکن ’وہ کسی ایک کو دوسرے سے زیادہ توجہ دینے کے لیے مناسب معلومات سے متعلق پر یقین نہیں ہیں۔‘
ان کے مطابق دو ایجنسیاں جانور کے ذریعے وائرس کے پھیلاؤ سے متفق دکھائی دیں جب کہ ’ایک کا جھکاؤ‘ لیبارٹری تھیوری کی جانب رہا تاہم انہیں اس پر مکمل یقین نہیں تھا۔
امریکی صدر کے  مطابق ’ان کا ملک دنیا بھر میں ہم خیال پارٹنرز کے ساتھ مل کر چین پر زور دیتا رہے گا کہ وہ مکمل، شفاف اور شواہد کی بنیاد پر کی جانے والی عالمی تحقیق کا حصہ بنے اور تمام ضروری ڈیٹا اور شواہد تک رسائی فراہم کرے۔‘
یہ بیان امریکی انتظامیہ کی جانب سے وائرس کے لیبارٹری سے خارج ہونے والی تھیوری سے متعلق عوامی سطح پر بحث سے بچنے اور اسے خارج از امکان قرار دینے کے موقف کے کئی ہفتے بعد سامنے آیا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی ایک ٹیم بھی کورونا وائرس سے متعلق تحقیق کے لیے ایک ماہ تک چین میں مقیم رہی (فوٹو: اے ایف پی)

رجحانات کی تبدیلی اور نشانی کے طور پر سینیٹ نے بغیر کسی مخالفت کے ووہان لیبارٹری سے متعلق دو ترامیم بھی منظور کی ہیں۔
ان دو میں سے ایک ترمیم چین میں وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق کسی بھی تحقیق کے امریکی فنڈنگ کو روکے گی جب کہ دوسری ترمیم میں ووہان انسٹیٹیوٹ آف ورولوجی کے لیے کسی بھی فنڈنگ کا راستہ روکا گیا ہے۔
ان ترامیم کو ٹیکنالوجی کے شعبے میں جدت سے متعلق ایک وسیع بل میں متعارف کرایا گیا ہے جس پر امریکی سینیٹ میں بحث جاری ہے۔
کورونا وائرس سے متعلق وائٹ ہاؤس کے مشیر ڈاکٹر انتھونی فاسی کا کہنا ہے کہ سائنٹیفک کمیٹی میں شامل بیشتر افراد اور وہ ’یقین رکھتے ہیں کہ یہ ایک قدرتی معاملہ ہے تاہم کوئی بھی اس بات کو مکمل طور پر نہیں جانتا۔‘
سینیٹ کے سامنے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘چونکہ اس معاملے پر خاصی تشویش ہے، بہت سے آرا ہیں اور کوئی بھی حتمی طور پر کچھ نہیں جانتا، اس لیے ہمیں ایسی تحقیقات کی ضرورت ہے جس میں شفافیت ہو اور تمام معلومات کو سامنے لایا جائے۔‘

شیئر: