Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترکی میں ’مظاہرین کو پولیس تشدد کا سامنا‘

ترک حکومت نے یونیورسٹیوں میں طلبا کے اجتماع پر بھی پابندی عائد کی ہے۔ فوٹو اے ایف پی
ترکی کی انسانی حقوق کی فاؤنڈیشن کی جانب سے شائع رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں ترک حکومت نے ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین کو ہراساں کیا ہے۔
عرب نیوز نے رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’سنہ 2015 سے 2019 تک کے دوران چار ہزار 771 خلاف ورزیاں ریکارڈ کی گئیں، جبکہ مظاہروں میں شرکت کرنے پر چار ہزار 907 افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔‘
رپورٹ کے مطابق ’کم از کم 999 افراد کو 13 ہزار 370 مہینے قید میں گزارنے کی سزا دی گئی تھی۔‘
مظاہرین پر دہشت گرد گروہوں کا رکن ہونے، عوامی املاک کو نقصان پہنچانے، پولیس کا مقابلہ کرنے اور ملک کے صدر کی توہین کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’چار ہزار 900 مظاہرین کو پولیس کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ چند جانیں بھی ضائع ہوئیں۔‘
ترک حکومت کے خلاف سنہ 2016 کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ہونے والے مظاہروں میں پرتشدد واقعات پیش آئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق ’ترکی میں جمہوری عمل کی تباہی سے معلوم ہوتا ہے کہ اجتماع اور مظاہرے کرنے کے حق کی منظم طریقے سے خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔‘
سنہ 2013 میں حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہونے والے ایک شہری ایردل ساریکیا پولیس کے تشدد کے باعث ایک آنکھ کی بینائی سے محروم ہو گئے تھے۔ مظاہروں کے دوران تشدد کے واقعات میں ملوث 16 پولیس افسران کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔
ترکی میں اعلیٰ عہدیداروں کی منظوری کے بغیر کسی بھی سرکاری افسر کے خلاف مجرمانہ تحقیقات نہیں کی جا سکتی ہیں۔

چار سالوں میں چار ہزار سے زائد مظاہرین کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔ فوٹو اے ایف پی

ترکی کی عدالت نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ شہری ایردل ساریکیا کو معاوضہ ادا کیا جائے اور واقعے کے ذمہ دار پولیس اہلکاروں کے خلاف تحقیقات کی جائیں۔ 
ترک انسانی حقوق کی فاؤنڈیشن کے مطابق ترکی میں ہونے والے مظاہروں کے دوران سنہ 2015 سے 2019 کے درمیان 23 طالب علم ہلاک جبکہ 720 زخمی ہوئے تھے۔
یونیورسٹی کیمپس میں طالب علموں کو اجتماع کرنے کا حق استعمال کرنے کے خلاف بھی ترکی کی پولیس رکاوٹیں کھڑی کرتی رہی ہے۔
گزشتہ ماہ اپریل میں جاری ہونے والے نئے حکمانے کے تحت مظاہروں کے دوران کسی بھی پولیس افسر کی ویڈیو بنانا غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تظیموں نے نئے حکومتی احکامات کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے ذریعے پولیس کا احتساب مزید کمزور ہوگا۔
ترک فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں پولیس کی جانب سے ظلم اور تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

شیئر: