Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فردوس عاشق اعوان کے تھپڑ کی گُونج سوشل میڈیا پر ابھی تک جاری

پیمرا کے مطابق ’سوشل میڈٰیا پر اس کی عمل داری بالکل نہیں ہے‘ (فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان کے سوشل میڈیا پر اس وقت پنجاب کی حکمران جماعت کی معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان کی گونج نیچے آنے کا نام نہیں لے رہی۔ ملک بھر سے صارفین اس پر یا تو فردوس عاشق اعوان کا دفاع کر رہے ہیں یا پھر تھپٹر کھانے والے پیپلزپارٹی کے نو منتخب ایم این اے قادر مندوخیل کے حق میں بول رہے ہیں۔
ایسے میں خالصتاً صحافتی اخلاقیات اور پیمرا کی عمل داری کے حوالے سے بھی سنجیدہ سوالات اس بحث کا حصہ بن چکے ہیں۔  
پہلا سوال یہ سامنے آتا ہے کیا آف دی ریکارڈ ہونے والے واقعے کی فوٹیج باہر آنا کس حد تک اخلاقی بات ہے؟
پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی تو اس حوالےسے واضع موقف رکھتی ہے۔ ان کے ترجمان کے مطابق ’چونکہ جو کلپ باہر آیا ہے کسی سیٹلائٹ نشریات میں سامنے نہیں آیا بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے آیا ہے تو سوشل میڈٰیا پر پیمرا کی عمل داری بالکل نہیں ہے۔ ایک ٹی وی سیٹ میں وقفے کے دوران کیا ہوا ہے اس پر نظر رکھنا پیمرا کا کام نہیں ہے۔‘  
بات تو درست ہے کہ پیمرا قوانین صرف اس مواد کی نگرانی کرتے ہیں جو سیٹلائٹ کے ذریعے یا کیبل کے ذریعے پھیلایا جا رہا ہے۔ اس سے ہٹ کے معاملہ ان کی عمل داری میں نہیں آتا۔
پاکستان کی معروف اینکرپرسن نسیم زہرہ سمجھتی ہیں کہ ’اس کلپ کا باہر آنا سراسر ایک سوالیہ نشان ہے اور یہ پیمرا قوانین سے ہٹ کر صحافتی اخلاقیات کا سوال ہے۔ میں اس بات کے شدید خلاف ہوں۔ اگر آپ کے سٹوڈیو سیٹ پر گالم گلوچ اور ہاتھا پائی ہو رہی ہے تو اس کی بڑی ذمہ داری اس ٹی وی انتظامیہ، اینکر اور اس کے سٹاف پر عائد ہوتی ہے۔‘ 
وہ کہتی ہیں کہ ’اب یہ ایک پیچیدہ ٹیکنالوجی کا بھی سوال ہے کہ آپ نے اسی کلپ کو سوشل میڈیا پر کس طریقے سے جانے دیا۔ اگر آپ نے خود نہیں جاری کیا تو آپ کی انتظامی نااہلی پر سوالیہ نشان ضرور اٹھے گا۔‘
سکول آف کمیونیکیشن پنجاب یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پرفیسر ڈاکٹر عائشہ اشفاق، جو صحافتی اخلاقیات کے مضمون کی ماہر استاد ہیں، وہ سمجھتی ہیں کہ ’دنیا کے کسی بھی ملک میں یا صحافتی کوڈ آف کنڈکٹ میں آپ اس بات کی وضاحت نہیں کر سکتے کہ آپ نے اپنے سٹوڈیو کے ایک آف دی ریکارڈ واقعے کی بغیر بتائے ویڈیو ریکارڈ کی۔‘
’پہلا سوال ہی ویڈیو ریکارڈنگ کا ہے۔ کیا پروگرام کے دوران وقفے میں شرکا نے اس بات کی اجازت دے رکھی تھی کہ ان کی فلم بندی جاری رکھی جائے؟ اگر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان یا دوسرے شریک مہمان قادر مندوخیل کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو ایسے لگتا ہے کہ انہیں اسے بات کا اندازہ ہی نہیں ہے کہ ان کی ویڈٰیو بن رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں تو یہ تک کہوں گی کہ اس کلپ میں میزبان کی باڈی لینگوئج بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ انہوں نے اس جھگڑے سے پہلے آن ایئر بھی اور جھگڑے کے دوران آف ایئر بھی صورت حال کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کی۔ تو میں ایسے ہی کہوں گی کی دنیا کے کسی بھی صحافتی اصول پر یہ صورت حال پوری نہیں اترتی۔ پہلے واقعہ ہونا اور پھر گمنام طریقے سے اس کی فوٹیج باہر آجانا۔‘ 

نسیم زہرہ کے مطابق ’ایسا کسی اور ملک میں ہوا ہوتا تو دونوں مہمان اس وقت چینل کے خلاف مقدمہ درج کرا چکے ہوتے‘ (فوٹو اے ایف پی)

ان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ میڈیا جب ہر طرح کی خبر دے دیتا ہے تو کیا اپنے سٹوڈیو میں ہونے والے واقعے کہ کوریج نہیں کر سکتا؟
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک بند کمرے میں آف دی ریکارڈ صورت حال تھی۔ اس کو پبلک پوائنٹ پر ہونے والا کوئی عام سا واقعہ آپ نہیں کہ سکتے، اور اس پر وہ تمام اصول و ضوابط لاگو ہوتے ہیں جو صحافت سے متعلق ہیں۔‘
نسیم زہرہ بھی اس سوال کو ایسے ہی دیکھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا کسی اور ملک میں ہوا ہوتا تو دونوں مہمان اس وقت چینل کے خلاف مقدمہ درج کرا چکے ہوتے اور چینل اپنی صفائی دے رہا ہوتا۔ چونکہ یہاں دور دور تک صحافتی اخلاقیات کی بات ہی نہیں ہوتی تو اس پر کون بولے گا۔‘
جاوید چوہدری جو اس پروگرام کے میزبان تھے، انہوں ایک اور نجی چینل دنیا نیوز پر اپنا موقف دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ یہ فوٹیج کس طرح باہر آگئی ہے۔ ہمارا سسٹم بہت مضبوط ہے۔ میرا جہاں تک خیال ہے یہ ہمارے ادارے سے لیک نہیں ہوئی بلکہ جو افراد ان دونوں مہمانوں کے ساتھ آئے تھے ان میں سے کسی نے بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کی ہے۔‘

شیئر: