Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین پنجاب میں سکھوں اور ہندوؤں کے تعاون سے مسجد کی تعمیر

نئی مسجد کی تعمیر 17000 ڈالر کی لاگت سے آئندہ برس مکمل ہو گی۔ (فوٹو عرب نیوز)
انڈیا کی ریاست پنجاب کے ایک دورافتادہ ضلع کے ایک گاؤں کے سکھ اور ہندو علاقے میں مسلم خاندانوں کے لیے مسجد کی تعمیر کے لیے سامنے آئے ہیں۔
عرب نیوز کےمطابق انڈیا میں بڑھتے ہوئے مذہبی تناؤ پر پائی جانیوالی تشویش کی موجودگی میں یہ مذہبی ہم آہنگی کا ایک واضح پیغام ہے۔

شاہی امام نے کہا کہ یہ مسجد دیہاتیوں کی محبت کی عکاس ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)

پنجاب کے ضلع موگا میں واقع 12ہزار افراد پر مشتمل بھلور گاؤں میں سات گردوارے اور دو مندر ہیں لیکن 20 مسلم رہائشیوں کے لئے کوئی مسجد نہیں۔
گاؤں کے سرپنچ پالا سنگھ نے عرب نیوز کو بتایا  ہےکہ 1947 میں برصغیر کی تقسیم سے قبل اس علاقے میں ایک مسجد موجود تھی تاہم بہت سے مسلمان گاؤں چھوڑگئے اور مسجد کی حالت خستہ ہوگئی۔
گذشتہ اتوار کو گاؤں کے سرکردہ افراد نے محمدی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ تمام عقائد کے لوگ تقریب میں شریک ہوئے۔ 45 سالہ پالاسنگھ نے کہا کہ نئی مسجد کی تعمیر کا حصہ بننے پر ہمیں فخر ہے۔

انڈیا کے باقی علاقوں کو بھی ہم سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ (فوٹو ٹوئٹر)

مسجد کی منیجنگ کمیٹی کے سربراہ انورخان نےعرب نیوز کو بتایاکہ کچھ لوگوں نے خود ہی موقع پر دو لاکھ روپے کا عطیہ دیا اور مزید تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔
32 سالہ نورخان نے بتایا کہ نئی مسجد کی تعمیر 17 ہزار ڈالر کی لاگت سے آئندہ برس مکمل ہونے کی امید ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم لوگ تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں ۔ گاؤں والوں کے جذباتی اور اخلاقی تعاون کے بغیر مسجد کی تعمیر ممکن نہیں تھی۔
 مسجد کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کرنے والی اعلیٰ مذہبی شخصیات میں عالم دین اور شاہی امام مولانا محمد عثمان رحمانی لدھیانوی شامل تھے۔
عثمان لدھیانوی نے کہا کہ جس دن یہ تقریب ہوئی، وہ دن تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا گیا۔

کچھ لوگوں نے 2 لاکھ روپےکا عطیہ دیا اور مزید تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ (فوٹو ٹوئٹر)

شاہی امام نے کہاکہ یہ مسجد دیہاتیوں کی محبت کی عکاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکھ اور مسلمان تاریخی بندھن میں بندھے ہیں۔ وہ کبھی ایک دوسرے کو نقصان نہیں پہنچاتے۔
دریں اثنا گزشتہ ماہ اترپردیش کے بارہ بنکی ضلع میں مقامی انتظامیہ نے ایک صدی قدیم مسجد کوشہید کر دیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ یہاں مسجد کبھی موجود ہی نہیں تھی۔
اسی ریاست میں ایک مندر کے قریب 100 برس سے رہائش پذیر مسلم خاندانوں کو حفاظتی وجوہ کی بنا پر آبائی گھر خالی کرنے کے لیے بھی کہا گیا تھا۔
گاوں کے سربراہ پالاسنگھ نے بتایا ہے کہ انڈیا کے باقی علاقوں کو ہم سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ ’پنجاب میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک تاریخ ہے۔ مسلم خاندانوں کو بھی حق ہے کہ وہ اپنی عبادت گاہوں (مساجد) میں نماز پڑھیں۔‘

شیئر: