Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈپریشن سے نکلنے کے لیے شہد بیچنے والی نوشین برکت

زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی۔ ہم بہن بھائی پاکستان کے مختلف شہروں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ہمیں شہد بہت پسند تھا۔ والدہ نے ٹریننگ لی اور شہد کی مکھیاں پالنے کے لیے ایک ڈبہ بھی لے لیا۔ ہمیں میٹھا، خالص اور گھر کا شہد بھیجتیں۔ جسے بعد ازاں میں نے خود کو ایک ٹراما سے نکالنے کے لیے کاروبار کی شکل دی۔ اب میں اور والدہ مل کر ایک وسیع کاروبار کی طرف جا رہے ہیں۔
یہ کہنا ہے گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ سے تعلق رکھنے والی نوشین برکت کا جو کراچی میں قیام پذیر ہیں اور گذشتہ دو برسوں سے آن لائن شہد فروخت کر رہی ہیں۔
ان کی والدہ اور کچھ مقامی خواتین وادی ہنزہ میں شہد کے مکھیوں کی پرورش کرتی ہیں اور شہد تیار کر کے نوشین برکت کو کراچی بھیجتی ہیں۔
اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں نوشین برکت نے کہا کہ ’جو کام ہم نے شروع کیا ہے اسے مردوں کا کام مانا جاتا ہے، ہم نے اس تصور کو تبدیل کر دیا ہے۔ یعنی ہم شہد نکال کر فروخت کرتی ہیں اور اس کام کو شروع کرنے کے پیچھے ایک کہانی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’اللہ نے اڑھائی سال پہلے مجھے ایک بیٹا دیا تھا۔ پیدائش کے وقت میرے بیٹے کے جسم کے نچلے حصے میں درجنوں فریکچرز تھے۔ بیٹے کی پیدائش کے ساتھ ہی میری زندگی میں نئی جدوجہد کا آغاز ہوا تھا۔ بیٹے کو روزانہ ہسپتال لے کر جانا، فزیو تھراپی کرانا، اس سے میں ڈپریشن میں چلی گئی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’اس وقت صرف میں ہی نہیں بلکہ میری پوری فیملی بھی ایک ٹراما میں تھی۔ تب میں نے سوچا کہ میں خود کو مصروف کروں۔ ایسی صحت مندانہ سرگرمی ہو جس سے میری ذہنی حالت بہتر ہو اور آمدن بھی ہو تاکہ میں اپنے بچے کو اچھا وقت دے سکوں۔ تب میرے ذہن میں آیا کہ کیوں نہ جو کام میری والدہ کر رہی ہیں اسے آگے بڑھایا جائے اور اپنے خاندان سے نکال کر نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان کو شہد ملے، میٹھا شہد۔ دو سال میں اس کو بہت پذیرائی ملی ہے اس کو مزید وسعت دینے کا سوچ رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اس کام سے نہ صرف میں مصروف ہوئی بلکہ ہم نے اپنے کام میں صرف خواتین کو شامل کیا اور ہر ایک کام خواتین سے کروایا جس سے خواتین کو روزگار ملا۔
جو خواتین اپنے کسی بھی خصوصی بچے کی وجہ سے پریشان ہیں۔ میری جدوجہد ان کے لیے پیغام ہے کہ اس سے پریشان ہونے کے بجائے اپنے بچے کی خصوصی ضروریات کے ساتھ جینا سیکھیں۔ اب میرا بچہ اگر ذرا سی حرکت بھی کرے تو مجھے دنیا جہان کی خوشی مل جاتی ہے۔

نوشین کے مطابق دو سالوں میں ایک باکس سے 40 باکس تک پہنچ گئے ہیں۔ (فوٹو: فیس بک اُسقر)

نوشین برکت نے کہا کہ ’سنہ 2016 میں میری والدہ نے شہد کا ایک باکس لیا تھا اور ٹریننگ حاصل کی تاکہ وہ ہم بہن بھائیوں کو شہد بھیج سکیں۔ پھر انھوں نے علاقے کی کچھ خواتین کا گروپ بنایا اور مل کر کام کرنے لگیں۔ اس سے ان خواتین کو فائدہ پہنچا کیونکہ ان کے پاس آمدن کے محدود ذرائع تھے۔ یہ بالکل مقامی سطح پر خواتین کو با اختیار بنانے جیسا ایک عمل تھا۔
میری رہائش کراچی میں ہے اور میری والدہ گلگت میں رہتی ہیں۔ ہم نے یہ سوچا کہ ہم شہد گلگت میں ہی نکالیں گے اور اس کو کراچی بھیجا جائے گا۔ گلگت سے کراچی بس آتی ہے جس کے ذریعے وہ میرے پاس بھیجتی ہیں۔ میں پیکنگ اور مارکیٹنگ کے بعد آن لائن بیچتی ہوں۔
نوشین کے مطابق ’دو سالوں میں ایک باکس سے 40 باکس تک پہنچ گئے ہیں اور سالانہ 200 کلوگرام تک شہد فروخت کر رہے ہیں۔ اس سال کے آخر تک 60 باکس کا ہدف ہے جبکہ اگلے سال کے اختتام 150 سے زائد باکس ہوں گے۔ اس سے مقامی خواتین کو روزگار کے مزید موقع میسر آئیں گے۔

نوشین برکت نہ صرف شہد بیچتی ہیں بلکہ وہ غذائی اشیا کی نمائش کے مقابلوں میں بھی حصہ لیتی ہیں۔ (فوٹو: فیس بک اُسقر)

دوسری جانب گلگت سے نوشین کی والدہ اور ان کی پارٹنر شمس برکت نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’پہلے ہم شہد نکالتے تھے اور اپنے بچوں اور رشتہ داروں کو بھیج دیتے تھے۔ پھر میری بیٹی نے مشورہ دیا کہ یہ اتنا اچھا کام ہے کہ ہم اسے پورے پاکستان میں پھیلا سکتے ہیں۔ اس طرح ہم نے اس کو وسعت دینا شروع کی اور اب ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔
نوشین برکت ایک کاروباری خاتون کی حیثیت سے قدرتی غذائی اشیاء کی نمائش میں شرکت کرتی ہیں۔ جہاں نہ صرف وہ شہد بیچتی ہیں بلکہ وہاں منعقدہ مقابلوں میں بھی حصہ لیتی ہیں۔ اب تک وہ تین مقابلوں میں دوسری پوزیشن بھی حاصل کر چکی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جب ہمارے کام سے مقامی سطح پر خواتین مالی طور پر خود مختار اور خوشحال ہوتی ہیں مجھے اور میرے والدین کو بہت خوشی ملتی ہے۔

شیئر: