Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جوہری مذاکرات میں تعطل پر ایران کی الزام تراشی ’اشتعال انگیز‘ ہے: امریکہ

عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے نئے دور کے لیے نئی انتظامیہ کے آنے تک انتظار کرنا چاہیے۔ (فوٹو: روئٹرز)
امریکہ نے تہران پر جوہری مذاکرات میں تعطل کا الزام دوسروں پر ڈالنے کا الزام لگاتے ہوئے اسے ’اشتعال انگیز‘ کوشش قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے کوئی معاہدہ طے نہیں پایا ہے۔
روئٹرز کے مطابق ایران کی جانب سے مذاکرات کی قیادت کرنے والے عباس عراقچی نے اس سے قبل ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’ویانا میں ہونے والے مذاکرات کے نئے دور کے لیے تب تک انتظار کرنا چاہیے جب تک اگست میں نئی ایرانی انتظامیہ اقتدار نہ سنبھال لے۔‘
انہوں نے اس امر پر اصرار کیا تھا کہ اگر امریکہ اور برطانیہ قیدیوں کے تبادلے کو جوہری ایشو کے ساتھ جوڑنے سے گریز کریں تو اس کو جلدی انجام دیا جا سکتا ہے۔
2015 کے معاہدے کے احیا کے حوالے سے امریکہ اور ایران کے درمیان بالواسطہ طور پر ہونے والے مذاکرات 20 جون کو ہونے والے دور کے بعد سے تعطل کا شکار ہیں اور عراقچی کے تبصرے نے اس امر کی تصدیق کر دی ہے کہ ایران نئے صدر ابراہیم رئیسی کے اقتدار سنبھالنے تک مذاکرات کی میز پر نہیں آئے گا۔
انہوں نے ٹویٹ میں مزید لکھا تھا ’اس وقت ہم اقتدار کی منتقلی کے ایک جمہوری مرحلے میں ہیں جو ہمارے دارالحکومت میں جاری ہے اور نئی انتظامیہ آنے تک ویانا مذاکرات کے لیے انتظار کرنا چاہیے۔‘
امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اس کے جواب میں کہا ’یہ تبصرہ حالیہ تعطل کا الزام دوسروں پر ڈالنا ہے، ایران ضروری فیصلے انجام دے لے تو ہم جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) پر مزید کام مکمل کرنے کے لیے ویانا واپسی پر قائم ہیں۔‘
انہوں نے مشترکہ جامع پلان آف ایکشن میں دونوں ممالک کو واپس لانے کے لیے سفارتی کوششوں کا حوالہ بھی دیا۔
 یہ وہی جوہری معاہدہ ہے جس کو سابق امریکی صدر نے ختم کر دیا تھا تاہم ان کے بعد صدر بننے والے جو بائیڈن اس کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔
عراقچی نے امریکہ اور برطانیہ پر زور دیا تھا کہ وہ قیدیوں کے تبادلے کو جوہری معاہدے کے ساتھ منسلک نہ کریں۔
ان کے مطابق ’اگر امریکہ اور برطانیہ نے معاہدے کے اپنے حصے پر عمل کیا تو کل تک دس قیدی رہا کیے جا سکتے ہیں۔‘

شیئر: