Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ذہنی صحت پر کورونا کے طویل المدت اثرات، ڈبلیو ایچ او کی تنبیہ

عالمی ادارہ صحت نے ذہنی صحت سے متعلق تنبیہ ایتھنز میں دو روزہ کانفرنس کے موقع پر دی ہے (فوٹو: پکسابے)
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ وبا کی وجہ سے ذہنی صحت پر پڑنے والے اثرات طویل المدت اور دیرپا ہوں گے۔
جمعرات کے روز ڈبلیو ایچ او کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ماہرین کورونا سے متعلق دباؤ اور تناؤ سے متعلق ضروری اقدامات کی جانب توجہ دلا چکے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے وائرس کے پھیلاؤ، لاک ڈاؤن کے نفسیاتی اثرات، قرنطینہ سے متعلق تناؤ، بیروزگاری، معاشی خدشات اور سماجی تنہائی کے پیدا کردہ دباؤ کو ذہنی صحت سے متعلق بحران کے اہم اسباب قرار دیا ہے۔
بیان کے مطابق وبا کی وجہ سے ذہنی صحت پر پڑنے والے اثرات طویل المعیاد ہوں گے۔
یورپ کے لیے ڈبلیو ایچ او کے ریجنل ڈائریکٹر ہنس کلوگی نے وائرس سے متاثرہ زندگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ذہنی صحت کو ’بنیادی انسانی حق‘ تسلیم کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کانفرنس کو بتایا کہ ’وبا نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔‘
’دنیا بھر میں 40 لاکھ سے زائد اموات ہوئی ہیں، زندگی گزارنے کے اسباب تباہ ہوئے، خاندان اور برادریاں جدا ہوئیں، کاروبار دیوالیہ ہوئے اور لوگ مواقع سے محروم ہوئے ہیں۔‘
عالمی ادارہ صحت نے ذہنی صحت سے متعلق خدمات بہتر کرنے پر زور دیتے ہوئے ٹیکنالوجی کے ذریعے ان تک رسائی بہتر کرنے کا بھی کہا ہے۔

وبائی صورتحال نے ذہنی صحت سے متعلق مسائل میں اضافہ کیا ہے (فوٹو: پکسابے)

سکولوں، جامعات اور دفاتر میں نفسیاتی تعاون بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ کورونا وبا کا سامنا کرنے والوں کے لیے بھی اس سہولت کی فراہمی کی توقع کی گئی ہے۔
وزرائے صحت کو کیتھرین نامی 38 سالہ خاتون نے بتایا کہ وہ کیسے 2002 کے بعد سے نفسیاتی عارضے کا علاج کرا رہی تھیں حتی کہ وبائی صورتحال کا شکار ہو گئیں۔ جس کے بعد وہ سپورٹ گروپس میں شرکت سے محرومی کے ساتھ ساتھ اپنے والد سے بھی نہیں مل پا رہیں جو انہیں علاج میں بہتری پر آمادہ کرتے تھے۔
خاتون کے مطابق ’سماجی تنہائی کے پیدا کردہ دباؤ نے انہیں مزید تناؤ کا شکار کیا ہے۔‘

شیئر: