Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں الیکشن، بڑی سیاسی جماعتیں مدمقابل

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی سیاست میں برادری ازم انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے والا اہم ترین عنصر سمجھا جاتا ہے.
25 جولائی اتوار کے روز پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ یہ الیکشنز کشمیر کے ماضی کے انتخابات سے کافی حد تک مختلف ہیں کیونکہ یہ پانچ اگست 2019 کو انڈیا کی جانب سے اپنے زیرانتظام کشمیر کو انڈیا کی یونین ٹیریٹریز میں بدلنے کے بعد کے حالات میں منعقد ہو رہے ہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں کل 53 نشستیں ہیں جن میں سے 45 نشستوں پر براہ راست انتخاب ہوتا ہے۔ ان 45 میں سے 33 نشستوں پر انتخاب کشمیر کی حدود میں ہوتا ہے جبکہ 12 نشستوں پر انتخاب پاکستان میں مقیم مہاجرین جموں و کشمیر کے حلقوں میں ہوتا ہے۔ مہاجرین مقیم پاکستان کی 12 نشستوں میں سے چھ صوبہ جموں جبکہ دوسری چھ صوبہ کشمیر کے مہاجرین کے لیے ہیں۔ قانون ساز اسمبلی میں خواتین کے لیے پانچ جبکہ ٹیکنوکریٹ، علما مشائخ اور سمندر پار کشمیریوں کے لیے ایک ایک نشست مختص ہے۔
کشمیر کے الیکشن کمیشن کی حتمی فہرست کے مطابق الیکشن 2021 میں مجموعی طور پر 708 امیدوار میدان میں ہیں جن میں سے 587 پاکستان کے زیر انتظام کشمیر جبکہ 121 امیدوار پاکستان میں مختلف شہروں میں موجود مہاجرین کشمیر کے حلقوں سے شامل ہیں۔ کشمیر کے 33 انتخابی حلقوں میں 261  جبکہ مہاجرین کے 12 حلقوں میں 56 آزاد امیدوار بھی میدان میں ہیں۔ کشمیر کے ان انتخابات میں 32 لاکھ 20 ہزار 546 رائے دہندگان ووٹ ڈالیں گے جن میں چار لاکھ تین ہزار 456 ووٹرز مہاجرین مقیم پاکستان کے حلقوں سے شامل ہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے الیکشن کی روایت ہے کہ یہاں اسلام آباد میں برسراقتدار جماعت ہی کی مقامی شاخ فاتح قرار پاتی رہی ہے۔ 2018 میں اسلام آباد میں جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنی تو اس وقت کشمیر میں مسلم لیگ ن کی حکومت قائم تھی۔ کشمیر کی حکومت نے اپنی مدت اقتدار تو پوری کی لیکن ان تین برسوں میں اسلام آباد اور مظفرآباد کی حکومتوں میں واضح تناؤ کی کیفیت دیکھی جاتی رہی ہے۔
اگرچہ اس وقت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تحریک انصاف کو دھڑے بندی سمیت کئی طرح کے مسائل کا سامنا بھی ہے، تاہم اس کے باوجود ’ماضی کی روایت کا اثر‘ کہیں نہ کہیں سیاسی فیصلوں میں دکھائی دے رہا ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں کل 53 نشستیں ہیں (فوٹو: سکرین گریب)

حالیہ الیکشن میں ووٹرز اور سیاسی جماعتوں کی ترجیحات سے متعلق اردو نیوز نے مظفرآباد کے صحافی اور سیاسی تجزیہ کار ملک عبدالحکیم کشمیری سے پوچھا  تو ان کا کہنا تھا کہ ’اب کی بار کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنی الیکشن مہم میں پارٹی منشور کی بات نہیں کی، مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے الزامات کی سیاست ہوتی رہی اور مجموعی طور پر یہ الیکشن مہم پی ٹی آئی اور اینٹی پی ٹی آئی بیانات اور نعرے بازی پر مرکوز رہی اور کشمیر کی الیکشن مہم پاکستانی سیاست کا اکھاڑا بنی رہی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی الیکشن مہم کے دوران اسلام آباد حکومت کی مداخلت واضح تھی۔ تحریک انصاف کے رہنما اور وزیر امور کشمیر علی امین گنڈاپور جلسوں میں سرعام پیسے بانٹتے اور ہر جلسے میں سڑکوں کی تعمیر اور تعلیمی اداروں کے قیام  کے وعدے کرتے رہے۔‘
الیکشن سے تین دن قبل کشمیری سیاسی حلقوں میں اس وقت ہلچل مچ گئی جب کشمیر کے ضلع باغ سے جماعت اسلامی کے سابق امیرعبدالرشید ترابی نے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار سردار تنویر الیاس کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ اس موقع پر سردار تنویر الیاس نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس فیصلے میں ہمارے سٹریٹجک پلاننگ کرنے والے اداروں کی بلیسنگ بھی شامل ہے۔‘
عبدالرشید ترابی کے اس فیصلے پر جماعت اسلامی کشمیر نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور ان کی بنیادی رکنیت معطل کر دی۔ عبدالرشید ترابی سات مرتبہ جماعت اسلامی آزاد جموں کشمیر و گلگت بلتستان کے امیر منتخب ہو چکے ہیں اور لگ بھگ 23 برس تک اس عہدے پر فائز رہے ہیں۔ اس دوران انہوں نے الیکشن میں حصہ بھی لیا اور بھاری ووٹ حاصل کرتے رہے۔

الیکشن کمیشن کی حتمی فہرست کے مطابق الیکشن 2021 میں مجموعی طور پر 708 امیدوار میدان میں ہیں (فوٹو: سکرین گریب)

عبدالرشید ترابی اور جماعت اسلامی کی سیاست کے بارے میں عبدالحکیم کشمیری کہتے ہیں کہ ’جماعت اسلامی پاکستانی سیاست میں مزاحمت کی علامت سمجھی جاتی تھی، اب یہ اقتدار پرست جماعت بن چکی ہے جو اسلام آباد میں کسی کے ساتھ ہوتی ہے اور صوبوں اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اس کا اتحاد کسی اور جماعت کے ساتھ ہوتا ہے۔ ‘
اس بارے میں صحافی اور تجزیہ کار عارف بہار کا موقف قدرے مختلف  ہے۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’عبدالرشید ترابی کافی عرصے سے پاور پالیٹکس میں سرگرم ہیں۔ پاور پالیٹکس میں رہ کر ان کا قد اب جماعت اسلامی کی سطح سے بلند ہو چکا ہے۔ ان کا بوجھ اب جماعت نہیں اٹھا سکتی، اس لیے اب وہ اپنی نئی ترجیحات کے مطابق فیصلے کر رہے ہیں۔‘
اس الیکشن میں پاکستان کی اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کافی سرگرم دکھائی دے رہی ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے کشمیر میں بڑے بڑے سیاسی جلسوں سے خطاب کیا۔ مریم نواز اپنے جلسوں میں بار بار پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی شناخت کو مٹانے کی ’سازشوں‘ کا ذکر کرتی رہیں اور یہ جملہ دہراتی رہیں کہ ’عمران خان آزادکشمیر کو صوبہ بنانا چاہتے ہیں۔‘

 کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی کُل 53 نشستوں میں سے 45 نشستوں پر براہ راست انتخاب ہوتا ہے (فوٹو: سکرین گریب)

الیکشن میں خواتین کی سیاست میں دلچسپی کیسی ہے؟

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے الیکشن میں خواتین کی دلچسپی میں ہر پانچ برس بعد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اب کی بار تینوں بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے جلسوں میں خواتین کی مناسب تعداد نے شرکت کی۔ لیکن الیکشن میں بطور امیدوار کھڑی ہونے والی خواتین کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں میں مختلف عہدوں پر کام کرنے والے خواتین بھی الیکشن میں براہ راست حصہ لینے کی بجائے خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کی دوڑ میں مصروف نظر آتی ہیں۔ عارف بہار کے مطابق ’حلقوں کی سیاست میں خواتین کے لیے ابھی تک کافی مشکلات ہیں ، یہ سب آہستہ آہستہ بدلے گا۔‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اسلام آباد میں برسراقتدار جماعت ہی کی مقامی شاخ فاتح قرار پاتی رہی ہے (فوٹو: سکرین گریب)

کشمیر کے تشخص کا نعرہ
پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی سیاست میں ’ریاستی تشخص‘ کا نعرہ ماضی میں کافی مقبول رہا ہے۔ پہلے ریاستی تشخص کا نعرہ ریاستی جماعت مسلم کانفرنس لگایا کرتی تھی اور مسلم کانفرنس کے رہنما کشمیر میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی شاخیں بنا کر ان کی توسیع کے عمل پر تنقید کرتے تھے لیکن اب کی بار مسلم لیگ ن کے جلسوں میں اسی نعرے کی گونج سنائی دیتی رہی۔ کشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدر کئی موقعوں پر یہ کہتے سنے گئے کہ ’یہ الیکشن کشمیر کی شناخت کے تحفظ کے لیے فیصلہ کن ہوں گے’ جبکہ مریم نواز اپنے جلسوں میں ’بچہ بچہ کٹ مرے گا کشمیر صوبہ نہیں بنے گا‘ کا نعرہ لگاتی رہیں۔
کشمیر کے تشخص کے بارے میں عارف بہار کا کہنا تھا کہ ’کشمیر کے تشخص کی بات اگر ریاستی سیاسی جماعتیں کریں تو سمجھ میں آتا ہے لیکن یہاں المیہ یہ ہے کہ ریاستی تشخص کی بات بھی اب غیر ریاستی جماعتوں کے بینر تلے ہو رہی ہے۔‘

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں ہونے والے انتخابات میں 32 لاکھ 20 ہزار 546 رائے دہندگان ووٹ ڈالیں گے (فوٹو: سکرین گریب)

قوم پرست جماعتیں الیکشن سے الگ کیوں؟
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) سمیت کچھ سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جو ریاست جموں و کشمیر کی وحدت اور خود مختاری کا نعرہ لگاتی ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں نافذ ایکٹ 1974 کے تحت کوئی بھی ایسی سیاسی جماعت یا شخص الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا جو ’نظریہ الحاق پاکستان‘ کا حامی نہ ہو۔ اس آئینی شق کی وجہ سے قوم پرست تنظیمیں الیکشن کے عمل کا حصہ نہیں بن سکتیں، یہ جماعتیں الیکشن سے قبل الیکشن کی مخالفت میں جلسے جلوس اور ریلیاں منعقد کرتی رہتی ہیں۔ اس الیکشن مہم کے دوران بھی جے کے ایل ایف نے پونچھ ڈویژن اور دیگر علاقوں میں ایسے کئی جلسے کیے جن میں الیکشن کے بائیکاٹ کی بات کی گئی لیکن دوسری طرف قوم پرست سیاست کرنے والے کم از کم 20 امیدوار ’نظریہ الحاق‘ کی اس شق پر دستخط کر کے الیکشن بھی لڑ رہے ہیں۔ قوم پرست امیدواروں میں سب سے زیادہ کا تعلق جموں کشمیر نیشنل عوامی پارٹی سے ہے۔ 

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی سیاست میں برادری ازم انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے والا اہم ترین عنصر سمجھا جاتا ہے (فوٹو: سکرین گریب)

کشمیر کی سیاست میں برادریوں عنصر
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی سیاست میں برادری ازم انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے والا اہم ترین عنصر سمجھا جاتا ہے۔ کشمیر کے مختلف ڈویژنز میں سدھن،جاٹ، گجر اور راجپوت قبائل بااثر شمار ہوتے ہیں۔ اسی لیے سیاسی جماعتیں ٹکٹوں کی تقسیم کے دوران بھی اس عنصر کو ملحوظ رکھتی ہیں اور ایسے افراد کر ترجیحی بنیادوں پر ٹکٹ دیتی ہیں جنہیں مقامی سطح پر اثر و رسوخ کی حامل کسی برادری یا قبیلے کی حمایت حاصل ہو۔  
الیکشن میں امن امان کی صورت حال
کشمیر کے الیکشن میں مجموعی طور پر امن امان کی صورت حال بہتر رہتی ہے لیکن حویلی ، عباسپور ، سماہنی اور برنالہ جیسے حلقوں میں ماضی میں تصادم ہو چکے ہیں۔ اس الیکشن میں بھی امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے فرنٹیئر کور (ایف سی) اور فوج کے خصوصی دستے تعینات کیے جا رہے ہیں۔ کشمیر کے الیکشن کمیشن نے فوج کے افسران کو مجسٹریٹ کے برابر اختیارات بھی دیے ہیں۔

شیئر: