Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر الیکشنز میں پی ٹی آئی فاتح، پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے غیرسرکاری غیر حتمی نتائج کے مطابق تحریک انصاف نے واضح کامیابی حاصل کرلی ہے۔ پیپلز پارٹی دوسرے جبکہ مسلم لیگ (ن) تیسرے نمبر پر رہی۔
اب تک 45 نشستوں میں سے 42 نشستوں کے غیرحتمی و غیرسرکاری نتائج سامنے آئے ہیں جس میں پاکستان تحریک انصاف نے 25 نشستیں حاصل کر کے میدان مار لیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے 10 اور مسلم لیگ ن نے 6 نشستیں حاصل کی ہیں۔
غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق جموں کشمیر پیپلز پارٹی اور مسلم کانفرنس نے ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل کی ہے۔

کون کون سے نمایاں امیدوار فاتح قرار پائے؟

غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق بیرسٹر سلطان محمود، چوہدری لطیف اکبر ، راجہ فاروق حیدر، چوہدری یاسین ، سردار یعقوب خان، سردارعتیق احمد، فیصل راٹھور ، سردار تنویر الیاس اور سردار حسن ابراہیم سمیت کئی اہم رہنماؤں نے اپنے حریف امیدواروں پر واضح برتری حاصل کر لی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے کئی رہنماؤں کو شکست ہوئی ہے۔

کن کن نمایاں امیدواروں کو شکست کا سامنا ہے؟

غیر حتمی غیرسرکاری نتائج کے مطابق شکست کا سامنا کرنے والے نمایاں سیاسی رہنماؤں میں چوہدری طارق فاروق ، چوہدری عزیز ، راجہ نصیر ، فاروق طاہر، مشتاق منہاس ، راجہ یاسین، نجیب نقی ، راجہ نصیر ، ملک نواز، پرویز اشرف، مسعود خالد اور چوہدری سعید شامل ہیں۔ 

الیکشن کمیشن نے ایل اے 16 باغ کے انتخابی نتائج روک دیے ہیں۔ حلقے کے دو پولنگ سٹشینز پر دوبارہ پولنگ کا فیصلہ آج کیا جائے گا۔
پیر کے روز سرکاری ملازمین کے ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے کے بعد حتمی نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔

مریم نواز کا ردعمل

مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے ٹویٹ کیا کہ ’میں نے نتائج تسلیم نہیں کیے ہیں اور نہ کروں گی۔ میں نے تو 2018 کے نتائج بھی تسلیم نہیں کیے اور نہ اس جعلی حکومت کو مانا ہے۔ ورکر اور ووٹرزکو شاباش دی ہے۔ اس ’بے شرم دھاندلی‘ پر کیا لائحہ عمل ہو گا، جماعت جلد فیصلہ کرے گی‘۔

’ن لیگ نے بہت اچھا الیکشن لڑا ہے، سخت مقابلہ کیا ہے۔ ریاست اور طاقت کے تمام سینٹرز اور دھاندلی کا یوں مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے۔ میں ن لیگ کے تمام ووٹرز اور ورکروں کو ان کی جرات اور بہادری پر شاباش دینا چاہتی ہوں۔ مجھے دل سے فخر ہو رہا ہے ان پر۔‘
ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ’ میں بالکل مایوس نہیں ہوں۔ مسلم لیگ ن نے ایک دھاندلی زدہ الیکشن میں بھی بہترین مقابلہ کیا ہے اور ’شیم پیج ‘کو بہت ٹف ٹائم دیا ہے‘۔

مریم نواز کے آفیشنل اکاونٹ پر کیے گئے ٹویٹ کا عکس

’کسی بھی منصفانہ الیکشن میں یہ ن لیگ کے سامنے کھڑے بھی نہیں ہو سکتے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ن لیگ کشمیر میں ایک عوامی طاقت کے طور پر ابھری ہے اور جاگ رہی ہے‘۔
اس سے قبل  پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنماؤں کا کہنا تھا کہ رات ساڑھے آٹھ بجے کے بعد کئی حلقوں کے انتخابی نتائج کو روک دیا گیا ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ ’پی ٹی آئی دھاندلی کر کے انتخابات جیتنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ن لیگ کے رہنما راجہ فاروق حیدر نے ٹویٹ کیا کہ ’سمجھ نہیں آ رہا نتائج کیوں نہیں آ رہے ہیں۔‘
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے بھی ٹویٹ کیا کہ ’نتائج روک دیے گئے ہیں۔‘
تاہم پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے چیف الیکشن کمشنر عبدالرشید سلہریا نے انتخابی عمل ہر مکمل اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات آزادانہ، شفاف اور پرامن منعقد ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ ان انتخابات میں 33 حلقوں سے 602 امیدوار اپنی قسمت آزمائی کی جبکہ پاکستان میں مقیم مہاجرین کے 12 انتخابی حلقوں میں 122 امیدوار میدان میں تھے۔

بلاول بھٹو زرداری کا بیان

الیکشن کے غیرحتمی نتائج سامنے آنے کے بعد  پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ’پی ٹی آئی نے آزادکشمیر کے الیکشن میں تشدد اور دھاندلی کا سہارا لیا۔ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن کی ضوابط کی خلاف ورزی پر کارروائی میں ناکام رہا، لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی 11 نشستوں کے ساتھ آزادکشمیر کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی بن کر سامنے آئی ہے۔  پی پی پی آزادکشمیر کی جانب سے اچھا مقابلہ کرنے مجھے فخر ہے۔‘
دوسری جانب گوجرانوالہ کے علاقے علی پور چٹھہ میں مسلم لیگ ن کے رہنما عطا تارڑ کو پولیس نے گرفتار  کر لیا ہے۔ عطا تارڑ علی پور چٹھہ تھانے کے باہر احتجاج کر رہے تھے۔ 
پولیس نے لیگی رہنما کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو استعمال کیا جا رہا ہے۔‘

پولیس نے عطا تارڑ کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

 کوٹلی میں ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا جہاں سیاسی کارکنوں میں تصادم ہوا جس میں دو افراد کی ہلاکت ہوئی ہے۔
ضلع باغ کے بعض پولنگ سٹیشنز پر لڑائی جھگڑے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جبکہ ڈل چٹیاں کے علاقے میں سیاسی کارکنوں کے تصادم کے دوران چار پولیس اہلکار زخمی ہو گئے ہیں۔
کشمیر میں 32 لاکھ 20 ہزار 546 رائے دہندگان پانچ سال کے لیے اپنے نمائندوں کا انتخاب کیا ہے۔
ان انتخابات میں پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نواز کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع تھا۔
پاکستان کی فوج کوئیک رسپانس فورس کے طور پر تعینات ہے جبکہ رینجرز اور ایف سمیت قانون نافذ کرنے والے محکمے نے انتخابات کے دوران امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے مقامی پولیس کی معاونت کی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے الیکشن کمیشن نے 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے فوجی دستے تعینات کرنے کی درخواست کی تھی۔
اس درخواست پر پاکستان کی فوج 22 سے 26 جولائی تک کوئیک ری ایکشن فورس کے طور پر تعینات رہے گی۔

اب کی بار مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اپنے اپنے طور پر کشمیر میں اپ سیٹ کرنے اور تاریخ بدلنے کے لیے بھرپور عوامی مہم چلائی (فوٹو: ٹوئٹر مریم نواز)

ماضی کی ’روایت‘ کا تسلسل کیسے برقرار رہا؟

مبصرین کے مطابق کشمیر کی پارلیمانی تاریخ میں یہ رجحان رہا ہے کہ پاکستان میں حکمران جماعت ہی کشمیر کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کی کشمیر میں شاخیں انتخابات میں حصہ تو لیتی ہیں لیکن انہیں نتائج کے بارے میں پہلے ہی سے اندازہ ہوتا ہے۔
اب کی بار مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اپنے اپنے طور پر کشمیر میں اپ سیٹ کرنے اور تاریخ بدلنے کے لیے بھرپور عوامی مہم چلائی ہے۔ دونوں سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت نے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے مختلف اضلاع میں بڑے بڑے جلسے کیے جس سے یہ تاثر ابھرا کہ یہ دونوں جماعتیں تحریک انصاف کو مشکل میں ڈال سکتی ہیں۔ 

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے گذشتہ انتخابات میں مسلم لیگ ن دو تہائی اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوئی تھی۔(فوٹو، اردو نیوز)

الیکشن مہم کے دوران وفاقی وزراء بھی کشمیر میں موجود رہے لیکن مقامی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کو ماضی کی حکمران جماعتوں کی نسبت الیکشن مہم کے دوران کافی مشکل صورت حال کا سامنا رہا۔ تحریک انصاف کی الیکشن مہم عملی طور پر وفاقی وزیر برائے امور کشمیر علی امین گنڈا پور کی قیادت میں جاری رہی اور الیکشن کے ضابطوں کی خلاف ورزی کے حوالسے سے بار بار علی امین گنڈا پور کا نام ذرائع ابلاغ میں آتا رہا ۔ الیکشن کمیشن نے ان کے جلسوں میں تقاریر پر پابندی بھی عائد کی لیکن وہ اس کے بعد بھی انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے رہے۔  
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے گذشتہ انتخابات میں مسلم لیگ ن دو تہائی اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوئی تھی جبکہ اس وقت کی کشمیر کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کشمیر سے دو جبکہ مہاجرین کی ایک نشست کراچی سے حاصل کر سکی تھی۔
تحریک انصاف نے مہاجرین کی لاہور اور مانسہرہ کی ایک ایک نشست جبکہ کشمیر سے ایک نشست کے ساتھ مجموعی طور پر تین نشستیں حاصل کی تھیں۔

شیئر: