Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نور مقدم قتل کیس: ’اسے فرانزک کے لیے لاہور لے جانا ہے‘

گذشتہ ہفتے نور مقدم کو ایف سیون سیکٹر میں قتل کیا گیا تھا۔ (فائل فوٹو)
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے نور مقدم قتل کیس میں گرفتار ملزم ظاہر جعفر کے ریمانڈ میں تیسری مرتبہ توسیع کرتے ہوئے مزید تین روزہ ریمانڈ کی منظوری دے دی ہے۔
بدھ کو پولیس کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا ہے کہ ’سی سی ٹی وی فوٹیج میں موجود شخص کی جسمانی شناخت کے فرانزک ٹیسٹ کے لیے ملزم کو لاہور لے کر جانا ہے۔
حسب معمول کیس کی سماعت سے قبل ہی مقتولہ نور مقدم کے والد اور سابق سفیر شوکت مقدم کچہری پہنچ گئے تھے اور اپنے وکلا کے ساتھ مسلسل کیس کے قانونی نکات پر بات کرتے رہے۔
جب ملزم کو پیشی کے لیے لانے کی تیاری نظر آئی تو وہ اس سے پہلے ہی کمرہ عدالت کے اندر جا کر وکلا کے روسٹرم پر کھڑے ہوگئے تاکہ انھیں ملزم کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
چوتھی بار پیشی کے لیے ملزم ظاہر جعفر کو عدالت لایا گیا تو ملزم کو تنگ سیڑھیوں کے راستے دوسری منزل پر مجسٹریٹ محمد شعیب کی عدالت میں پہنچایا گیا۔
کیس کی سماعت شروع ہوئی تو پوری سماعت میں ملزم ظاہر جعفر کا کسی بھی وکیل یا جج کی جانب سے نام نہیں لیا گیا بلکہ ملزم کے بجائے ’اِسے یا اِس‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا رہا۔
 جج نے پوچھا کہ کیا کہنا ہے پراسیکیوشن کا؟ جس پر سرکاری وکیل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ’وقوعہ کی سی سی ٹی وی ویڈیوز حاصل کر لی ہیں۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کی فرانزک کرانا ہے۔ جس کے لیے ’اِسے‘ لاہور لے کر جانا ہے۔ اس لیے ’اِس‘ کا تین دن کا مزید جسمانی ریمانڈ منظور کیا جائے۔
ملزم کے وکیل انصر نواز نے نام لیے بغیر موقف اختیار کیا کہ ’اگر کوئی فرانزک ٹیسٹ کرانا ہے تو ’اِس‘ کا فوٹو لے کر کروا لیں۔ ’اِس‘ سے اسلحہ اور موبائل فون برآمد ہو چکے ہیں۔ ’اِس‘ کے مزید جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں ہے۔
مدعی کے وکیل شاہ خاور نے کہا کہ فرانزک کے لیے ’اِسے‘ ہی لاہور لے کر جانا ہے فوٹو سے کام چلتا تو ہم ’اِس‘ کا مزید ریمانڈ نہ مانگتے۔

ملزم کو اسلام آباد پولیس نے جائے وقوعہ سے گرفتار کیا تھا۔ (فوٹو: اسلام آباد پولیس)

اس موقع پر سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ’فرانزک ٹیسٹ کے لیے ’اِس‘ کا جسمانی طور پر موجود ہونا لازمی ہے۔ ابھی حال ہی میں عثمان مرزا کیس میں بھی ہم سارے ملزمان کو لاہور لے کر گئے تھے۔ فرانزک سائنس لیبارٹری میں ’اِس‘ کی موجودگی اس لیے بھی لازمی ہے معلوم ہو سکے کہ ویڈیو میں ایڈیٹنگ تو نہیں ہوئی۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ ’اِس‘ کا اب تک سات یوم کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا جا چکا ہے۔ ویسے بھی تو 14 روز کے ریمانڈ کی قانونی گنجائش موجود ہے۔ سی سی ٹی وی ویڈیوز کی فرانزک تک مزید جسمانی ریمانڈ منظور کیا جائے۔
ملزم کے وکیل نے سوال اٹھایا کہ ’سات دن تک ریمانڈ پر سی سی ٹی وی ویڈیوز کا فرانزک کیوں نہیں کرایا؟ پہلی دفعہ سن رہا ہوں کہ ویڈیو فرانزک کے لیے ’اِس‘ کا ریمانڈ پر ہونا ضروری ہے۔ آپ جیل سے بھی ’اِسے‘ لاہور لے کر جا سکتے ہیں۔‘
مدعی کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ ’نور مقدم کا قتل واقعاتی شہادتوں پر مبنی ہے۔ اس لیے اس میں فرانزک شواہد لازمی ہیں۔ جب تفتیش مکمل ہوگی ہم خود کہہ دیں گے کہ ’اِسے‘ جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیں۔
دوران سماعت ملزم ظاہر جعفر جو کمرہ عدالت کے درمیان میں پولیس اہلکاروں کے حصار میں کھڑے تھے سر اٹھا کر ادھر ادھر کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔ جس پر کمرہ عدالت سے باہر موجود ایک پولیس اہلکار نے اندر آ کر ملزم کی گردن اور کندھا پکڑ کر اسے نیچے دیکھنے کی ہدایت کی۔ جس پر ملزم نے گردن جھکا کر نیچے دیکھنا شروع کر دیا۔

ملزم کے والدین سے بھی پولیس تفقتیش کر رہی ہیں۔ (فوٹو: بلیو ڈائمنڈ گیلری)

عدالت نے ملزم کا تین روزہ ریمانڈ منظور کرتے ہوئے ہفتے کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا۔
پولیس ملزم کو لے کر نکلی تو پولیس حکام نے اہلکاروں کو ہدایت کی کہ ’اِسے‘ کسی سے بات نہیں کرنے دینی۔ سیڑھیوں سے اترے ہوئے ایک مقام پر ملزم کا پاؤں پھسلا تو پولیس اہلکار نے جھڑکتے ہوئے کہا کہ ’دیکھ کر چلو‘۔
سماعت کے بعد اردو نیوز سے گفتگو میں مدعی کے وکیل شاہ خاور نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’پولیس نے جو سی سی ٹی فوٹیج حاصل کی ہے اس میں کیا کچھ نظر آر رہا ہے اس کی تفصیلات تو نہیں بتا سکتے لیکن اس میں جرم کے ارتکاب میں اس کا جو کردار ہے وہ بڑا واضح نظر آ رہا ہے۔
ملزم کے وکیل نے ’اردو نیوز کے استفسار پر بتایا کہ اس مقدمہ میں فی الحال وہ صرف ریمانڈ کے حوالے سے ہی بات کر سکتے ہیں۔ ملزم کے کردار اور قتل کی وجوہات کے بارے میں دلائل صرف اسی وقت ہی دیں گے جب پولیس کی جانب سے عدالت میں چالان پیش کر دیا جائے گا۔

شیئر: