Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عاصم سلیم باجوہ کن تنازعات کا شکار رہے؟

عاصم باجوہ ڈی جی آئی ایس پی آر بھی تعینات رہے تھے
سی پیک اتھارٹی کے سبکدوش ہونے والے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ پاکستان کی تاریخ میں کئی حوالوں سے یاد رکھے جائیں گے۔
چیئرمین سی پیک اتھارٹی کے طور پر ان کا دوسالہ دور تنازعات کا شکار رہا تاہم اس سے قبل وہ پاکستان کی فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے آئی ایس پی آر کے سربراہ کے طور پر خاصے کامیاب گردانے جاتے ہیں۔
عاصم سلیم باجوہ کو نومبر 2019 کو وفاقی حکومت نے پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق عاصم سلیم باجوہ کی تقرری ایم پی ون سکیل کے تحت 4 سال کی مدت کے لیے کی گئی تھی تاہم منگل کو ان کے قریبی ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا کہ وزیراعظم کے نئے معاون خصوصی خالد منصور کا تقرر ہو گیا تھا اور سابق چیئرمین سی پیک کے دوسال مکمل ہو گئے تھے اس لیے انہوں نے خدا حافظ کہہ دیا ہے۔  
قریبی ذرائع کا کہنا تھا کہ سی پیک پروگرام ٹریک پر ہے اور سابق چیئرمین اپنی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ جنرل عاصم باجوہ مستعفی ہوئے ہیں یا انہیں ہٹایا گیا ہے۔
دوسری طرف وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے بھی اپنی ٹویٹ میں عاصم باجوہ کے جانے کی اطلاع تو دی مگر یہ نہیں بتایا کہ انہوں نےاستعفی دیا یا وزیراعظم نے انہیں ہٹا دیا۔
اسد عمر کا اپنی ٹویٹ میں کہنا تھا کہ ’میں خالد منصور کو سی پیک کے لیے وزیراعظم کا خصوصی معاون بننے پر ٹیم میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ ان کا چینی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے اور ان کا سی پیک کے بڑے پراجیکٹس میں براہ راست شامل ہونا انہیں سی پیک کے اگلے فیز کے لیے ایک موزوں ترین شخص بناتا ہے۔‘
ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ  ’میں عاصم سلیم باجوہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے سی پیک کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی مستقل مزاجی اور لگاؤ سے بہت فائدہ ہوا۔

لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ سے جڑے تنازعات

آئی ایس پی آر کے ڈی جی اور کوئٹہ میں طاقتور سدرن کمان کے کمانڈر کے طور پر خدمات سرانجام دینے کے بعد جب عاصم باجوہ پاکستان فوج سے ریٹائر ہوئے تو حکومت نے انہیں نومبر 2019 کو سی پیک اتھارٹی کا چیئرمین لگا دیا۔
پھر اپریل 2020 کو وزیراعظم نے انہیں اپنا معاون خصوصی برائے اطلاعات تعینات کر دیا تو ان کے سیاسی کیریئر کا آغاز ہوا۔
ان کی تعیناتی کے وقت ان کے سابق رفقا کار نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے خدشے کا اظہار کیا تھا کہ فوجی افسر سیاست میں آکر کہیں تنازع کا شکار نہ ہو جائیں۔ ان کی تعیناتی کے تین ماہ بعد حکومت نے کابینہ میں شامل غیر منتخب مشیروں اور معاونین خصوصی کے ملک کے اندر اور بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات پبلک کر لیں تو عاصم سلیم باجوہ سوشل میڈیا پر ایک نئے تنازعے کا شکار ہو گئے۔
ہوا یوں کہ ان کے اثاثوں کی فہرست میں یوں تو ڈی ایچ اے لاہور، کراچی میں رہائشی اور کمرشل پلاٹوں کے علاوہ گلبرگ گرینز اسلام آباد میں 5 کنال کا گھر  بھی تھا مگر تنازع ان کی ٹیوٹا زیڈ ایکس 2016 کی ظاہر کردہ قیمت پر ہوا۔
اثاثوں کی تفصیل میں گاڑی کی قیمت 30 لاکھ بتائی گئی تھی مگر مارکیٹ میں ایسی گاڑی کی قیمت تین کروڑ سے زائد تھی۔
ابھی یہ تنازع ختم نہ ہوا تھا کہ 27 اگست کو صحافی احمد نورانی کی جانب سے فیکٹ فوکس نامی ویب سائٹ پر ایک رپورٹ شائع کی گئی تھی جس میں عاصم سلیم باجوہ کے خاندانی کاروباری معاملات پر بات کی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ ان کے اور ان کی اہلیہ کے نام پر امریکہ میں متعدد پیزا آؤٹ لیٹس اور جائیدادیں ہیں۔

جنرل عاصم سلیم باجوہ کو نومبر 2019 میں سی پیک اتھارٹی کا چیئر پرسن مقرر کیا گیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

خبر آنے کے بعد لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے اپنے اور اپنے خاندان کے اوپر لگائے گئے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات میں اپنا استعفیٰ پیش کیا تھا جو وزیراعظم نے قبول نہیں کیا تھا۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل(ر) عاصم سلیم باجوہ کی جانب سے جو ثبوت اور وضاحت پیش کی گئی ہے وہ اس سے مطمئن ہیں لہٰذا وزیر اعظم نے انہیں بطور معاون خصوصی کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
عاصم سلیم باجوہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’الحمد للہ میری ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش بے نقاب ہو گئی ہے۔
ان کے مطابق ’جھوٹی خبر میں بطور معاون خصوصی ظاہر اثاثوں کو غلط قرار دیا گیا۔ 22 جون 2020 کو اثاثے ظاہر کیے گئے اس وقت اہلیہ کسی کاروبار میں حصہ دار نہیں تھیں۔ اہلیہ یکم جون 2020 تک انویسٹمنٹ سے دستبردار ہو چکی تھیں۔‘
تاہم ان سے جڑا یہ تنازع ختم نہ ہوا اور اپوزیشن رہنماؤں بالخصوص مریم نواز شریف، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن نے بھی اس خبر کی بنیاد پر ان پر کرپشن کے الزام عائد کرتے ہوئے ان سے استعفے کا مطالبہ کیا۔
اکتوبر 2020 کو لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات کا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کر دیا تاہم وہ سی پیک کے چیئرمین کے طور پر کام کرتے رہے۔ سی پیک اتھارٹی آرڈیننس کی معیاد ختم ہونے کے بعد ان کے عہدہ قانونی جواز کھو بیٹھا تو ایک بار پھر اپوزیشن نے تنقید کے تیروں کا رخ ان کی جانب کیا تاہم حکومت نے قانون سازی کے ذریعے دوبارہ انہیں عہدے پر کام جاری رکھنے کا جواز فراہم کر دیا۔

کرپشن کے الزامات کے بعد اپوزیشن رہنماؤں نے جنرل عاصم باجوہ سے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

 آئی ایس پی آر کی جدت میں جنرل عاصم باجوہ کا کردار

لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کو جدید آئی ایس پی آر کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دور میں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ میں بڑے پیمانے پر جدت لائی گئی۔
ان کے قریبی ذرائع کے مطابق انہوں نے نا صرف آئی ایس پی آر کی بلڈنگ، آلات اور دیگر ہارڈویئر کو تبدیل کیا بلکہ سافٹ ویئر یعنی انسانی وسائل کے حوالے سے بھی بنیادی تبدیلیاں کیں۔
جنرل باجوہ سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے ملٹری سیکریٹری کے طور پر ملکی و غیر ملکی میڈیا کا قریب سے مشاہدہ کر چکے تھے۔
اس وجہ سے 2012 میں جب وہ آئی ایس پی آر میں آئے تو ان کے ذہن میں ایک واضح پلان تھا۔
ان سے قبل آئی ایس پی آر ایک ایسا ادارہ تھا جو کاغذ پر پریس ریلیز بنا کر ویڈیو کو ڈسک پر ڈال کر چینلز میں پہنچاتا تھا۔
انہوں نے آکر فوج کے اندر سے بھی باصلاحیت افسران کو لے کر ایک ٹیم بنائی جس نے اطلاعات کے دور کے چینلجز کا مقابلہ کرنا تھا۔
جنرل عاصم کے قریبی ذرائع کے مطابق ان کے دور میں آئی ایس پی آر ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر آیا اور اطلاعات فوری طور پر میڈیا اور عوام تک پہنچانے کا انتظام کیا گیا۔

اکتوبر 2020 کو جنرل عاصم سلیم باجوہ نے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات کا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کر دیا(فوٹو: سی پیک)

میڈیا کے ساتھ بہتر ورکنگ ریلیشن شپ قائم کیا، تکنیکی طور پر بہتری کے ذریعے اطلاعات اور ویڈیوز آن لائن پہنچانے کا بندوبست کیا۔
ان سے قبل آئی ایس پی آر کچھ ادوار میں بین الاقوامی میڈیا کو زیادہ توجہ دیتا تھا اور کچھ ادوار میں مقامی میڈیا پر فوکس کرتا تھا۔ انہوں نے دونوں طرح کے میڈیا کے ساتھ بہتر ابلاغ کا نظام قائم کیا۔
جنرل عاصم کے دور میں آئی ایس پی آر نے اہم مواقع پر میوزک اور نغموں کو ریلیز کرنے کی ریت ڈالی اور ان میں سے کچھ نغمے مثلا ’بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے‘ بہت مشہور ہوئے تھے۔
اس کے ساتھ انہوں نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو دوبارہ سے بہتر بنانے کے لیے خاصی کوشش کی۔ آئی ایس پی آر کی اپنی فلم ’وار‘ مشہور ہوئی اور فن کاروں کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی۔
ان سے قبل ایبٹ آباد میں امریکی فوج کے آپریشن کے بعد ہونے والے پروپیگنڈے کا آئی ایس پی آر کوئی موثر جواب نہیں دے سکا تھا تاہم جنرل عاصم باجوہ کے دور میں ہونے والے دہشت گرد حملوں اور واقعات کے حوالے سے میڈیا کو لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹ کیا جاتا تھا اور پشاور اے پی ایس حملے کے تین گھنٹے بعد وہ خود میڈیا کو لے کر سکول پہنچ چکے تھے۔

شیئر: