Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جعلی ویکسینیشن سرٹیفکیٹ کی بڑھتی شکایات، معاملہ کیا ہے؟

ویکسین نہ لگائے جانے پر سختیوں کے بعد شہری بڑی تعداد میں ویکسینیشن سینٹرز کا رخ کر رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے اور ویکسین نہ لگائے جانے پر سختیوں کے بعد جہاں ویکسین لگوانے والوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے وہیں جعلی ویکسین سرٹیفیکیٹ یا جعلی انٹری کے کیسز بھی سامنے آ رہے ہیں۔
ان واقعات سے نہ صرف دوسرے شہریوں کی صحت کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں بلکہ ملک میں جاری سرٹیفیکیٹ مشکوک ہونے کے باعث بیرون ملک سفر کرنے والے پاکستانیوں کے لیے بھی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
گزشتہ کئی دنوں سے واٹس ایپ اور سوشل میڈیا کے ذریعے پیسے لے کر جعلی کورونا ویکسینیشن سرٹیفیکٹ کی پیشکش تو سامنے آہی رہی تھی اب ملک بھر سے یہ شکایات بھی سامنے آئی ہیں کہ بعض ویکسینیشن سینٹرز پر عملے کی ملی بھگت سے کورونا کی ویکسین کے لیے شہریوں کی رجسٹریشن تو کر دی جاتی ہے تاہم انہیں ویکسین لگائے بغیر سرٹیفیکیٹ مل جاتا ہے۔
 اس حوالے سے کراچی، کوئٹہ اور لاہور میں کئی مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں اور گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں اور اسلام آباد میں بھی اردو نیوز کو کم از کم ایسے دو ایسے کیسز کا معلوم ہوا ہے جہاں ہسپتال کے عملے کی جانب سے ویکسین لگائے بغیر شہریوں کی سرٹیفیکیٹ کے لیے نادرا کے سسٹم میں انٹری کر دی گئی۔
ان کیسز میں شہریوں کی جانب سے اصرار کیا گیا تھا کہ انہیں ویکسین کے سائیڈ افیکٹس سے بچنے کے لیے ویکسین نہیں لگوانی تاہم فضائی سفر اور موبائل سم بلاک ہونے سے بچنے کے لیے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ بنگلہ دیش، روس سمیت متعدد ممالک سے جعلی کورونا ویکسین سرٹیفیکیٹ کی شکایات رپورٹ ہوئی ہیں۔
اس حوالے سے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر وفاقی وزارت صحت کے ترجمان ساجد شاہ نے کہا کہ ’ابھی تک وزارت کو اسلام آباد سے ایسے کسی کیس کی شکایت نہیں ملی جس میں ویکسین لگوائے بغیر نادرا کے سسٹم میں جعلی اندراج کیا گیا ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ویکسین لگوانے کے لیے شہریوں کو پہلے 1166 پر اندراج کرنا ہوتا ہے جس پر انہیں کوڈ آتا ہے پھر وہ دونوں خوراکوں کے لیے الگ الگ سینٹرز پر جاتے ہیں جہاں انٹری کر کے ویری فائی کیا جاتا ہے اور پھر ویکسین لگوائی جاتی ہے۔

فضائی سفر اور موبائل سم بلاک ہونے سے بچنے کے لیے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

جب انہیں بتایا گیا کہ سسٹم میں شہری کا شناختی کارڈ نمبر اور دیگر کوائف درج کرنے کے بعد ویکسین کا ٹیکا نہ بھی لگایا جائے تو نادرا کے سسٹم سے شہری کو ویکسین سرٹیفیکیٹ مل سکتا تو ترجمان وزارت صحت کا کہنا تھا کہ سسٹم کافی فول پروف ہے ایسا ہونا کافی مشکل ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر جعلی سرٹیفیکیٹ کے پیغامات ضرور آتے ہیں مگر وہ سسٹم پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتے۔
اسلام آباد کے قائم مقام ڈسٹرک ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر ذوالفقار  نے بتایا کہ ابھی تک ان تک ایسا ایک بھی کیس نہیں پہنچا جہاں وفاقی دارالحکومت میں کسی کا جعلی اندراج ہوا ہو۔

سرٹیفیکیٹ اصلی ہے یا جعلی سمارٹ فون سے فوری تصدیق ممکن ہے: نادرا

نادرا کی ترجمان ناز شعیب نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جعلی اندراج روکنے کے حوالے سے تو وزارت صحت اقدامات کرتی ہے تاہم نادرا نے اپنے سسٹم کو جدید ترین خطوط پر استوار کر کے یہ ممکن بنا دیا ہے کہ ایک عام شخص بھی اپنے فون سے کسی بھی ویکسینیشن سرٹیفیکیٹ کے اصلی یا جعلی ہونے کا پتا لگا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نادرا کے سسٹم سے جاری ہر ویکیسینیشن سرٹیفیکیٹ پر ایک کیو آر کوڈ ہوتا ہے جسے موبائل کے کیمرہ سے سکین کیا جائے تو اس پر سرٹیفیکیٹ کے اصل مالک کا نام ، پاسپورٹ نمبر اور دیگر کوائف سامنے آ جاتے ہیں اس طرح یہ ممکن نہیں کہ کوئی کسی اور کے سرٹیفیکیٹ پر جعل سازی سے اپنا نام وغیرہ درج کرکے کام چلا لے۔
تاہم نادرا اور وزارت صحت کے دعوؤں کے باجود ملک بھر سے جعلی سرٹیفیکیٹ کی شکایات کا سلسلہ جاری ہے۔

حالیہ دنوں میں ویکسینیشن سینٹرز پر بیرون ملک جانے والے شہریوں کی ایک بڑی تعداد دیکھی گئی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کراچی کا ہوم ویکسین سروس سکینڈل

کراچی سے اردو نیوز کے نمائندے توصیف رضی کے مطابق کورونا ویکسینیشن کے جعلی سرٹیفکیٹ بنانے کے علاؤہ غیر قانونی طور پر ویکسین لگوائے جانے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے جن کی ایف آئی آر درج کر کے ملزمان کو گرفتار بھی کیا گیا۔
جولائی کے اوائل میں کراچی کے سب سے بڑے ویکسینیشن مرکز ایکسپو سینٹر میں جعلی سرٹیفکیٹ بنوائے جانے کا سکینڈل سامنے آیا جس میں لوگوں کو بنا ویکسین لگوائے دو ہزار روپے کے عوض سرٹیفکیٹ بنا کر دیے جانے کا انکشاف ہوا۔ اس سلسلے میں ایک شخص کو گرفتار بھی کیا گیا، تاہم پولیس کا ماننا تھا کہ اس میں مزید افراد بھی ملوث ہوں گے۔
بعد ازاں پولیس نے کلفٹن ڈیفنس کے علاقے میں لوگوں کو گھر گھر جا کر غیر قانونی طور پر ویکسین لگانے والے گروہ کو بے نقاب کیا جو مہنگے داموں سرکاری ویکسین بیچ رہے تھے۔
میڈیکل ہوم سروس کی اس کمپنی کے دو عہدیداران کو حراست میں لیا گیا جن سے معلوم ہوا کہ کراچی ضلع وسطی کے محکمہ صحت کے حکام کی ملی بھگت سے یہ گروہ کام کر رہا تھا۔ ملزمان 15 ہزار روپے کے عوض فائیزر ویکسین کی ایک خوراک لگا رہے تھے۔

بلوچستان میں جعلی انٹری شکایات پر کیمروں کی تنصیب​

انسداد کورونا سیل بلوچستان کے ڈاکٹر سرمد خان نے اردونیوز کے نمائندے زین الدین کو بتایا کہ بلوچستان میں کورونا کی ویکسین لگائے بغیر جعلی سرٹیفکیٹ کے اجرا کی شکایات ملی ہیں جس کا محکمہ صحت نے سختی سے نوٹس لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کورونا ویکسین سرٹیفکیٹ کے عمل کو شفاف بنانے اور نگرانی کے لیے ویکسینیشن مراکز اور سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے دفاتر میں کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔
بلوچستان میں لوگوں نے ویکسین کی دونوں ڈوز لگانے کے باوجود بروقت سرٹیفکیٹ جاری نہ ہونے اور سرٹیفکیٹ میں ویکسین کے ناموں کے غلط اندراج کی بھی شکایات کی ہیں۔
ڈاکٹر سرمد خان کا کہنا ہے کہ شکایات کا ازلہ کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

بنگلہ دیش، روس سمیت متعدد ممالک سے جعلی کورونا ویکسین سرٹیفیکیٹ کی شکایات رپورٹ ہوئی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پنجاب میں جعلی سرٹیفیکیٹ پر 10 مقدمات

پنجاب میں کورونا ویکسین کے جعلی سرٹیفیکٹ بنانے سے متعلق صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے سیکریٹری پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ سارہ اسلم نے اردو نیوز کے رائے شاہنواز کو بتایا ’شروع میں ایسی صورت کا سامنا کرنا پڑا کہ لوگوں نے جعلی سرٹیفیکیٹ بنوائے اور اس حوالے سے ہم نے دس سے زائد مقدمے بھی درج کیے اور اس گھناونے فعل میں ملوث افراد کو گرفتار بھی کیا۔‘
انہوں نے کہا کہ اسی دوران ہم نے سسٹم کے لوپ ہول بھی چیک کیے اور ان کو دور کیا۔ اس وقت سسٹم فول پروف ہو چکا ہے اور کوئی بھی شخص جعلی سرٹیفیکیٹ حاصل نہیں کر سکتا ہے۔
’ایک تو ہم نے اپنے سسٹم کو اپ گریڈ کیا ہے اور دوسرا نادرا کا سسٹم بھی اب ہمارے سسٹم سے لنک ہو چکا ہے تو اب ویکسین لگوائے بغیر اور رجسٹریشن کروائے بغیر سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا ناممکن ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی ٹیمیں صوبہ بھر میں متحرک ہیں اور مینوئل سنیپ چیکنگ بھی کرتی ہیں۔ یہ جو مقدمے بھی ہوئے وہ بھی ہماری ٹیموں نے سنیپ چیکنگ کے دوران ہی کیے۔ ویسے تو ویکسینیشن سنٹرز کے کنٹرول ضلعی انتظامیہ کے پاس ہیں اس لیے بھی ہمارا سٹاف اور مانیٹرنگ ٹیمیں صرف چینکنگ پر ہی مامور ہیں۔‘

سوشل میڈیا پر جعلی کورونا ویکسینیشن سرٹیفیکیٹ کا تذکرہ

جعلی کورونا ویکسینیشن سرٹیفیکیٹ کے بارے میں بہت سے سوشل میڈیا صارفین بھی شکایت کررہے ہیں کہ ایسے واقعات ان کی نظر سے بھی گزرے ہیں۔
اردو نیوز کی ویکسینیشن سرٹیفیکیٹ سے متعلق خبر پر تبصرے میں ٹوئٹر صارف یاسین چوہان لکھتے ہیں کہ ’میرے ایک جاننے والے نے گزشتہ ہفتے بالکل اسی طرح سرٹیفکیٹ حاصل کیا ہے۔‘

ایک اور صارف آئی باس کہتے ہیں کہ ’ویکسینیشن کی رجسٹریشن کا طریقہ کار انتہائی ناقص ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ممالک پاکستان پر اب بھی پابندیا لگا رہے ہیں‘۔

لاہور میں مقیم محمد سعید نے اردو نیوز کی خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بات بلکل ٹھیک ہے۔‘ میرے ایک عزیز نے بھی سرٹیفیکیٹ کے لیے کسی سے رابطہ کیا تھا اور بنانے والے نے انہیں یقین دہانی کروائی کہ انہیں 1500 روپے میں یہ سند مل جائے گی۔

صحافی زیب النساء برکی کہتی ہیں کہ یہ ایک انتہائی خطرناک معاملہ ہے۔ ’ویکسین مہم کے ساتھ ہمیں ایک ایسی مہم کی بھی ضرورت ہے جس کا زور ویکیسن کے حوالے سے غلط فہمیاں دور کرنے پر ہو۔‘

 

شیئر: