Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کابل ایئرپورٹ دھماکے: 13 امریکی فوجیوں سمیت 85 افراد ہلاک

 افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایئرپورٹ کے باہر دو خودکش دھماکوں میں 12 امریکی فوجیوں سمیت 85 افراد ہلاک اور 140 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ حملے کی ذمہ داری شدت پسند گروپ داعش نے قبول کی ہے۔
تاہم ایئرپورٹ کے باہر خود کش دھماکوں کے چند گھنٹے بعد جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب کابل زور دار دھماکے سے گونج اٹھا۔  خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اپنے سٹاف کے حوالے سے بتایا کہ کابل دھماکے کی آواز سے گونج اٹھا۔
چونکہ کابل پر طالبان کے قبضے بعد کوئی ایڈمنسٹریشن نہیں اس کیے دھماکہ کی نوعیت اور جگہ کا فوری تعین نہیں ہوسکا ہے۔ 
قبل ازیں پینٹاگون کے پریس سیکریٹری جان کربی نے کہا تھا کہ ’ہم تصدیق کر سکتے ہیں کہ آج کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے حملے میں کئی امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ کئی ایک زخمی اہلکاروں کا علاج ہو رہا ہے۔ کئی افغان شہری بھی اس حملے کا نشانہ بنے۔‘
 روئٹرز کے مطابق امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میکنزی نے تصدیق کی کہ کابل ایئرپورٹ حملے میں 12 امریکی فوجی ہلاک جب کہ 15 دیگر زخمی ہوئے ہیں۔
پینٹاگون میں نیوز بریفنگ کے دوران جنرل میکنزی نے بتایا کہ دھماکے کے بعد فائرنگ بھی ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ حملے کے باوجود افغانستان سے انخلا کا آپریشن جاری ہے۔
ان کے مطابق ابھی تک ایک ہزار کے قریب امریکی شہری افغانستان میں موجود ہے۔
گو کہ ابھی تک ایئرپورٹ حملے میں ہلاکتوں کی صحیح تعداد کا پتہ نہیں چلا ہے تاہم روئٹرز کا کہنا ہے کہ افغان صحافیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں درجنوں افراد کی لاشیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ 
برطانوی میڈیا کے مطابق حملے میں اب تک 60 افراد ہلاک اور 140 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
قبل ازیں جان کربی نے کہا تھا کہ پہلا دھماکہ کابل ایئرپورٹ کے ایبے گیٹ پر ہوا جب کہ دوسرا دھماکہ بیرن ہوٹل کے قریب ہوا جو کہ ایبے گیٹ سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے۔
دوسری جانب طالبان ترجمان سہیل شاہین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’میں امریکہ کے زیر انتظام علاقے میں دو دھماکوں کی تصدیق کرتا ہوں۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق 13 افراد ہلاک اور 52 زخمی ہوئے ہیں۔‘
’ہم اس واقعے کی سختی سے مذمت کرتے ہیں اور ذمہ داروں کو انجام تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔‘
کابل میں طالبان کے ایک ترجمان قاری محمد یوسف نے اردو نیوز کو بتایا کہ دھماکے کابل ایئرپورٹ کے اس حصے میں ہوئے جو کہ امریکی افواج کے زیر کنٹرول ہے۔  قاری محمد یوسف کا کہنا تھا کہ دو سے تین دھماکے ہوئے۔ ’دھماکوں میں 50 تک عام لوگ شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔‘
دو امریکی اہلکاروں نے روئٹرز کو بتایا کہ دھماکوں میں سے ایک خودکش تھا۔ 
وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ  کابل دھماکے کے حوالے سے صدر جو بائیڈن کو بریف کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق بائیڈن افغانستان کے حوالے سے سکیورٹی حکام کے ساتھ ایک میٹنگ میں شریک تھے جب انہیں کابل ایئرپورٹ دھماکے کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔

امریکی انخلا کا عمل نہیں رکے گا

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق انخلا کی نگرانی کرنے والے امریکی جنرل نے کہا کہ یہ حملے امریکہ کو امریکیوں اور دیگر افراد کو افغانستان سے نکالنے سے نہیں روک سکیں گے اور ہماری پروازیں جاری ہیں۔ امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میک کینزی نے کہا کہ ایئرپورٹ پر بڑی تعداد میں سیکورٹی موجود ہے اور انخلاء کے لیے متبادل راستے استعمال کیے جا رہے ہیں۔

بورس جانسن کا بیان

روئٹرز کے مطابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ ان کی حکومت کابل ایئرپورٹ پر حملے کے باوجود لوگوں کے انخلا کا سلسلہ جاری رکھے گی۔
جمعرات کو اس حوالے بلائے گئے ہنگامی اجلاس کے بعد ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے ہماری پیش رفت متاثر نہیں ہوگی۔ ہم انخلا کا کام جاری رکھیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمیشہ سے دہشت گردی اور موقعے سے فائدہ اٹھانے والے دہشت گرد حملوں کا خطرہ تھا۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں، لیکن مجھے افسوس ہے کہ ہمیں اس کے لیے تیار رہنا ہے۔‘

قاری محمد یوسف نے اردو نیوز کو بتایا کہ دھماکے کابل ایئرپورٹ کے اس حصے میں ہوئے جو کہ امریکی افواج کے زیر کنٹرول ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

دھماکے سے قبل امریکہ اور اتحادیوں کا انتباہ

اس سے قبل امریکہ اور اتحادیوں نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ کابل کے ہوائی اڈے سے دور رہیں کیونکہ داعش کے دہشت گردانہ حملے کا خطرہ ہے۔
اے ایف پی کے مطابق بدھ کی رات گئے لندن، کینبرا اور واشنگٹن کی جانب سے تقریباً ایک ہی طرح کا انتباہ جاری کیا گیا تھا جس میں علاقے میں جمع ہونے والے افراد پر زور دیا گیا کہ وہ نکل جائیں اور کسی محفوظ مقام پر چلے جائیں۔
کئی دنوں سے ہزاروں خوفزدہ افغان اور غیر ملکی طالبان حکومت سے فرار کی امید میں کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو گھیرے ہوئے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے انتباہی پیغام میں ’نامعلوم خطرات‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایبے گیٹ، مشرقی گیٹ یا شمالی گیٹ پر موجود افراد کو فوری طور پر نکل جانا چاہیے۔‘

جرمنی کی افواج کا انخلا مکمل

دوسری جانب سکیورٹی ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ ’جرمنی نے جمعرات کو کابل ائیرپورٹ سے فوجیوں کے انخلا کا اپریشن مکمل کر لیا ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جرمنی کا آخری طیارہ بھی کابل چھوڑ چکا ہے تاہم ذرائع کی جانب سے مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

شیئر: