Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ایشیا کا نوبل انعام‘ جیتنے والوں میں ایک پاکستانی بھی شامل

ریمن میگسیسے ایوارڈ 1957 میں قائم کیا گیا تھا تاکہ غریب ممالک میں ترقیاتی شعبے میں کام کرنے والے افراد اور گروپس کو تعظیم دی جا سکے۔ (فوٹو: فیس بک)
ہیضے کے علاج کے لیے ایک سستی ویکسین تیار کرنے میں مدد کرنے والی ایک بنگلہ دیشی سائنسدان، پاکستانی مائیکرو فنانس کے بانی اور ایک فلپائنی ماہی گیر نے ’ایشیا کا نوبل انعام‘ اپنے نام کر لیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بنگلہ دیش کی 70 سالہ فردوسی قادری ’رمون میگسیسے ایوارڈ‘ حاصل کرنے والے پانچ افراد میں سے ایک ہیں-
یہ ایوارڈ ایک فلپائنی صدر کے نام پر جاری کیا گیا ہے جو ہوائی جہاز کے حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ رواں سال ایوارڈ کی یہ تقریب آن لائن منعقد کی گئی۔
فرودسی کو ’سائنس کے شعبے میں زندگی بھر کی ریاضت‘ اور ’ویکسین کی تیاری میں انتھک کردار‘ کی بنیاد پر یہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔
منیلا میں قائم ایوارڈ فاؤنڈیشن نے ایک بیان میں کہا کہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں اسہال کی بیماریوں کی تحقیق کے بین الاقوامی مرکز میں کام کرتے ہوئے فردوسی قادری نے ہیضہ اور ٹائیفائیڈ سے لڑنے کے لیے زیادہ سستی ویکسین بنانے میں ’کلیدی کردار‘ ادا کیا۔ فاؤنڈیشن نے بنگلہ دیش کی سائنسی تحقیقی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے قادری کی کوششوں کا بھی حوالہ دیا۔

فردوسی قادری نے ہیضہ اور ٹائیفائیڈ سے لڑنے کے لیے زیادہ سستی ویکسین بنانے میں ’کلیدی کردار‘ ادا کیا۔(فوٹو: ڈیلی سن)

خیال رہے کہ رمون میگسیسے ایوارڈ 1957 میں قائم کیا گیا تھا تاکہ غریب ممالک میں ترقیاتی شعبے میں کام کرنے والے افراد اور گروپس کو تعظیم دی جا سکے۔
پاکستانی سماجی کارکن 64 سالہ محمد امجد ثاقب ’اپنی نوعیت کے پہلے بلاسود اور بغیر ضمانت کے مائیکرو فنانس پروگرام‘ کے بانی ہیں جنہوں نے لاکھوں غریب خاندانوں کی مدد کی ہے۔ انہیں بھی اس ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
ایوارڈ فاؤنڈیشن نے کہا کہ اپنے آغاز کی تقریباً دو دہائیوں کے بعد اخوت پاکستان کا سب سے بڑا مائیکرو فنانس ادارہ بن گیا ہے جس نے 900 ملین ڈالر کے برابر رقم تقسیم کی اور تقریباً 100 فیصد قرض کی ادائیگی کی شرح بھی قائم رکھی۔

64 سالہ محمد امجد ثاقب ’اپنی نوعیت کے پہلے بلاسود اور بغیر ضمانت کے مائیکرو فنانس پروگرام کے بانی ہیں۔ (فوٹو: فیس بک)

امجد ثاقب عبادت گاہوں کو مستحق افراد کو پیسے دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں، ان کے ’متاثر کن یقین کا حوالہ دیا گیا کہ انسانی بھلائی اور یکجہتی غربت کے خاتمے کے طریقے تلاش کریں گی۔
ایک 53 سالہ فلپائنی ماہی گیر رابرٹو بیلن کو بھی یہ ایوارڈ دیا گیا جنہوں نے جنوبی جزیرے مینڈاناؤ میں ’مرنے والی ماہی گیری کی صنعت کو زندہ کرنے میں مدد کی۔‘
حکومتی مدد کے ساتھ بیلن اور دیگر چھوٹے ماہی گیروں نے 2015 تک 500 ہیکٹر (1،235 ایکڑ) مینگروو جنگلات کو دوبارہ لگایا جس سے ان کی ماہی گیری میں بہتری ہوئی اور ان کا معیار زندگی بلند ہوا۔
ایوارڈ فاؤنڈیشن نے کہا کہ ’جو کبھی مایوسیوں کا صحرا تھا اب وہ صحت مند مینگروو جنگلات کا بڑا قطعہ ہے جو سمندری اور زمینی زندگی سے مالا مال ہے۔‘

53 سالہ فلپائنی ماہی گیر رابرٹو بیلن نے جنوبی جزیرے مینڈاناؤ میں ’مرنے والی ماہی گیری کی صنعت کو زندہ کرنے میں مدد کی۔‘(فوٹو:ڈبلیو اے سی سی)

فلپائن ہی میں قائم این جی او کمیونٹی اور فیملی سروسز انٹرنیشنل کے بانی امریکی اسٹیون منسی کو پناہ گزینوں، قدرتی آفات کے متاثرین کی مدد اور ایشیا میں سابق کمسن فوجیوں کو سکول واپس لانے کی بنیاد پر ایوارڈ دیا گیا۔
انڈونیشیا کی دستاویزی فلمیں بنانے والی کمپنی واچ ڈاک جو انسانی حقوق ، سماجی انصاف اور ماحولیات پر کام کرتی ہے، نے ’ایک آزاد میڈیا تنظیم کے لیے انتہائی اصولی جدوجہد‘ کی بنیاد پر ایوارڈ حاصل کیا۔

شیئر: