Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چین اور فرانس کی برطانیہ آسٹریلیا کے ساتھ امریکی جوہری معاہدے کی مخالفت

اس نئے معاہدے کے تحت امریکہ اور برطانیہ آسٹریلیا کو جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوزوں کی ٹیکنالوجی اور صلاحیت فراہم کریں گے۔(روئٹرز)
چین نے جمعرات کو امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے مابین نئے انڈو پیسیفک سکیورٹی اتحاد کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس طرح کی شراکت داری سے دیگر ممالک کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے اور خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ کی تیزی آنے سے خبردار کیا ہے۔‘
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ’اے یو کے یو ایس‘ نامی اس نئے بندوبست کے تحت امریکہ اور برطانیہ آسٹریلیا کو جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوزوں کی ٹیکنالوجی اور صلاحیت فراہم کریں گے۔
فرانس جس کا آسٹریلیا کے ساتھ اپنی آبدوز کا معاہدہ ختم ہو چکا ہے، نے ان منصوبوں کو سفاکانہ اور غیر متوقع قرار دیا۔
امریکہ اور اس کے اتحادی چین کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اثرورسوخ، خاص طور پر اس کی فوجی طاقت میں اضافے، تائیوان پر دباؤ اور متنازع جنوبی بحیرہ چین میں فورسز کی تعیناتیوں کے خلاف موثر اقدامات کے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن، برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اور آسٹریلیا کے وزیراعظم سکاٹ موریسن نے مشترکہ اعلان میں چین کا نام نہیں لیا اور بائیڈن انتظامیہ کے سینیئر عہدیداروں نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’شراکت داری کا مقصد بیجنگ کا مقابلہ کرنا نہیں ہے۔‘
تاہم چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے کہا کہ تینوں ممالک ’علاقائی امن اور استحکام کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں، ہتھیاروں کی دوڑ کو تیز کر رہے ہیں اور جوہری عدم پھیلاؤ کی بین الاقوامی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘
انہوں نے بیجنگ میں ایک بریفنگ میں کہا کہ ’چین ہمیشہ مانتا ہے کہ کوئی بھی علاقائی میکنزم امن اور ترقی کے رجحان کے مطابق ہونا چاہیے اور باہمی اعتماد اور تعاون کو بڑھانے میں مدد کرنی چاہیے۔‘
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا کہ ’یہ معاہدہ معاندانہ نہیں تھا، اس سے مستقبل میں برطانیہ کی جوہری آبدوزوں کے اخراجات کم ہوں گے۔‘
جانسن نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ ’اب جب کہ ہم نے اے یو کے یو ایس بنایا ہے، ہم توقع کرتے ہیں کہ دیگر جدید دفاعی نظاموں کی ترقی میں تیزی آئے گی جن میں سائبر، مصنوعی ذہانت، کوانٹم کمپیوٹنگ اور زیر سمندر صلاحیتیں شامل ہیں۔‘
موریسن کے ترجمان نے روئٹرز کو بتایا کہ ’اس شراکت داری نے آسٹریلیا کا فرانسیسی جہاز ساز بحری گروپ کے ساتھ  2016 کا معاہدہ ختم کر دیا ہے۔‘
فرانس نے بائیڈن پر پیٹھ میں چھرا گھونپنے اور اپنے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح کام کرنے کا الزام لگایا۔
لی ڈریان نے فرانس انفو ریڈیو کو بتایا کہ ’یہ سفاکانہ، یک طرفہ اور غیر متوقع فیصلہ مجھے بہت کچھ یاد دلاتا ہے جو مسٹر ٹرمپ کیا کرتے تھے۔’ میں ناراض ہوں۔ ایسا اتحادیوں کے درمیان نہیں کیا جاتا ہے۔‘
تینوں رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ آسٹریلیا ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا بلکہ خطرے سے بچنے کے لیے جہازوں کے لیے نیوکلیئر پروپلشن سسٹم استعمال کرے گا۔
جو بائیڈن نے کہا کہ ’ہم سب انڈو پیسفک میں طویل المدتی امن اور استحکام کو یقینی بنانے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں۔‘
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے کہا کہ نئی شراکت داری جس پر یورپی یونین سے مشاورت نہیں کی گئی، نے مزید مضبوط یورپی خارجہ پالیسی کی ضرورت ظاہر کی ہے۔
’ہمیں اپنے طور پر اپنی بقا کا انتظام کرنا چاہیے جیسا کہ دوسرے کرتے ہیں۔‘
بوریل نے انڈو پیسیفک خطے کے لیے یورپی یونین کی نئی حکمت عملی پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’میں سمجھ سکتا ہوں کہ فرانسیسی حکومت کو کس حد تک مایوس ہونا چاہیے۔‘

شیئر: