Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ڈیپ فیک‘ ویڈیوز کو کس طرح پہچانا جاسکتا ہے؟

اسد بیگ کا کہنا ہے ڈیپ فیک ویڈیوز جو اب تک سامنے آئی ہیں انہیں پہچاننا زیادہ مشکل نہیں ہے۔‘ فائل فوٹو: ان سپلیش
دنیا بھر میں روزانہ ایسی ویڈیوز بن رہی ہیں جس میں لوگوں کو وہ کام کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جو انہوں نے کبھی کیا نہیں اور وہ بولتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جو کبھی انہوں نے کہا نہیں۔
اپریل 2018 میں سابق امریکی صدر باراک اوباما ایک ویڈیو میں نمودار ہوئے جہاں انہوں نے لوگوں کو خبردار کیا کہ ’ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو رہے ہیں جس میں ہمارے دشمن ہمیں کچھ بھی کہتے ہوئے کسی بھی وقت دکھا سکتے ہیں، باوجود اس کے کہ ہم وہ چیزیں کبھی نہیں کہتے۔‘
اس ویڈیو میں سابق امریکی صدر لوگوں کو تنبیہ کر رہے تھے کہ اس ڈیجیٹل دور میں کسی بھی بات پر بغیر تحقیق کیے یقین کرنا کسی بڑے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
باراک اوباما کی باتیں تقریباً تمام درست تھیں لیکن اس ویڈیو میں باراک اوباما تھے ہی نہیں بلکہ جورڈن پیلے نامی آدمی کا بنایا ہوا ’ڈیپ فیک‘ تھا جو ہو بہ ہو اوباما لگ رہا تھا۔

ڈیپ فیک ہوتا کیا ہے؟

ڈیپ فیک ان تصاویر، ویڈیوز اور آڈیو کلپز کو کہتے ہیں جن میں مصنوعی ذہانت یا دیگر ذرائع سے تبدیلیاں کی جاتی ہیں تاکہ وہ اصل نظر آئیں۔  
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کے افسر امجد عباسی کہتے ہیں کہ ان کی معلومات کے مطابق ’ڈیپ فیک‘ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو ’مصنوعی ذہانت‘ یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا سہارا لیتے ہوئے کسی بھی شخص کی تصاویر یا ویڈیوز کو باآسانی پڑھ سکتی ہے اور اس کے بعد وہ اس سے وہ کام کرتے ہوئے بھی دکھا سکتی ہے جو دراصل اس انسان نے کبھی کیے نہیں۔‘
ان کے مطابق اب ایسی بہت سی ایپلیکشنز انٹرینٹ پر موجود ہیں جن کے ذریعے ’ڈیپ فیک‘ تیار کیے جاتے ہیں۔

ڈیپ فیک وہ تصاویر، ویڈیوز اور آڈیو کلپز ہیں جن میں مصنوعی ذہانت یا دیگر ذرائع سے تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ڈیپ فیک کیوں خطرناک ہے؟

اکتوبر 2019 میں ڈیپ ٹریس نامی ایک ڈیجیٹل کمپنی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال فحش مواد بنانے والی انڈسٹری میں بھی بڑھ رہا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق ایسی فلمیں بنانے والے ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کسی بھی مرد یا عورت کا چہرہ کسی دوسرے برہنہ شخص کے چہرے پر لگا سکتے ہیں۔
اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ انٹرنیٹ پر موجود ’ڈیپ فیک‘ ویڈیوز کی تعداد پچھلے ایک سال میں تقریباً دگنی ہوگئی ہے۔
برطانوی لکھاری ہیلن مورٹ کو پچھلے سال ایک دوست کے توسط سے پتہ چلا کہ ان کی فحش تصاویر انٹرینٹ پر گھوم رہی ہیں۔ تھوڑی تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ سوشل میڈیا نیٹ ورک سے کسی نے ان کی تصاویر پہلے ڈاؤن لوڈ کیں پھر ایک فحش ویب سائٹ پر اپلوڈ کر دیں اور لوگوں کو دعوت دی کہ ان تصاویر کو ایڈٹ کیا جائے۔

اسد بیگ کے مطابق کسی بھی آدمی یا عورت کی تصویر بنانے کے لیے کمپیوٹر کو پہلے خود سیکھنا پڑتا ہے۔ فائل فوٹو: پنٹریسٹ

ڈیپ فیک ویڈیوز کو کس طرح پہچانا جائے؟

پاکستان میں سائبر سکیورٹی سے متعلق امور پر گہری نظر رکھنے والے اسد بیگ نے اردو نیوز کو بتایا کہ پہلے فوٹو شاپ کے ذریعے ایسے کام ہوا کرتے تھے لیکن اب کمپیوٹر سے تیار کردہ پروگراموں کے ذریعے بھی ویڈیو یا تصاویر کو ’ڈیجیٹلی آلٹر‘ کیا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ڈیپ فیک بنانے کے لیے بہت سارے ایلگوریتھمز کا استعمال ہوتا ہے۔ ’ایک ایسا ایلگوریتھم موجود ہے جسے ہم ’گین جنریٹو ایڈورسریل نیٹورک‘ کہتے ہیں جو کہ انتہائی مشہور ہے اور ایسے ہی بہت سارے اور ایلگوریتھمز موجود ہیں جن کا استعمال ہوتا ہے۔‘
اسد بیگ کے مطابق کسی بھی آدمی یا عورت کی تصویر بنانے کے لیے کمپیوٹر کو پہلے خود سیکھنا پڑتا ہے کہ وہ کسی قسم کا مواد بنا رہا ہے۔
’اگر آپ کسی کی تصویر بنا رہے ہیں تو آپ کو پہلے کمپیوٹر کو بتانا پڑتا ہے کہ وہ شخص دکھتا کیسا ہے جس کے لیے کمپیوٹر کو کافی ڈیٹا درکار ہوتا ہے۔‘
تاہم ان کا ماننا ہے کہ ’ڈیپ فیک‘ ویڈیوز جو اب تک سامنے آئی ہیں انہیں پہچاننا زیادہ مشکل نہیں ہے۔‘
’ایسی ویڈیوز کو پہچاننے کا کوئی ایک طریقہ نہیں لیکن عام طور پر ویڈیوز کا بیک گراؤنڈ یا ویڈیو میں موجود شخص کے جسم یا چہرے کی حرکت آپ کو بتا دیتی ہے کہ یہ ویڈیو جعلی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر آپ تھوڑا سا غور کریں چہرے پر یا بالوں پر تو آپ کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ ویڈیو میں نظر آنے والا شخص اصلی شخصیت سے تھوڑا مختلف ہے۔‘

شیئر: