Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹیکس ریٹرن فائل کرنا کتنا مشکل، ماہر کی خدمات کیوں لی جاتی ہیں؟

ٹیکس ایڈوائزر کا ماننا ہے کہ جن تنخواہ دار افراد کو ٹیکس بچانا ہوتا ہے وہی کسی ماہر کی مدد لیتے ہیں۔ فوٹو: فری پِک
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے مالی سال 2020-21 کے لیے ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کی مہلت کل ختم ہو رہی ہے، ایسے میں بیشتر تنخواہ دار افراد کو ایسے ’ماہر‘ کی تلاش ہے جو ان کی سال بھر کی جمع تفریق برابر بٹھا کر ٹیکس ریٹرن فائل کر دے۔
انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے مراحل کو بتدریج آسان بنائے جانے کے باوجود اب بھی بیشتر افراد ٹیکس وکیل یا اکاؤنٹنٹ کا سہارا لیتے ہیں، اس حوالے سے ٹیکس ایڈوائزر کا ماننا ہے کہ جن تنخواہ دار افراد کو ٹیکس بچانا ہوتا ہے وہی کسی ماہر کی مدد لیتے ہیں۔
دوسری جانب ٹیکس دینے والوں نے بتایا کہ گوشوارے خود جمع نہ کروانے کی بڑی وجہ حساب کتاب کے جھنجھٹ سے بچنا، اور سال بھر میں دین لین کا منظم حساب نہ رکھنا ہے، انہوں نے تسلیم کیا کہ ٹیکس گوشوارے خود جمع کرواتے وقت ان کی دی گئی معلومات ’ریکنسائل‘ نہیں کرتیں، لہٰذا وہ کسی ایکسپرٹ کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔
اردو نیوز نے متعدد ایسے تنخواہ دار افراد سے بات کی جو برسوں سے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروا رہے ہیں لیکن آج بھی اس کام کے لیے وکیل یا کسی اکاؤنٹنٹ کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کی بنیادی وجہ ہے سال بھر میں دین لین کا حساب نہ رکھنا ہے اور پھر عین وقت پر جمع تفریق کی جھنجھٹ سے بچنے کے لیے تمام افراد کسی ’ماہر‘ کا سہارا لیتے ہیں جو حساب کتاب کی کمی زیادتی کو ’اندازے‘ سے بٹھا دیتے ہیں کہ ٹیکس گوشواروں میں کوئی بے ترتیبی نظر نہ آئے، اور مزید کوئی ٹیکس بھی ادا نہ کرنا پڑے۔
ٹیکس ایڈوائزر محمد جمال نے اردو نیوز کو بتایا کہ دور حاضر میں ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے حوالے سے سسٹم جتنا سادہ اور سہل ہو چکا ہے، ایسے میں اگر کوئی تنخواہ دار شخص خود سے ریٹرن فائل کرنے کی بجائے کسی وکیل کی مدد لے رہا تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ ٹیکس بچا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس وکیل گوشواروں میں ایسے اخراجات کا اضافہ کر دیتے ہیں جس سے ٹیکس بچ سکے اور کوائف ریکنسائل بھی ہو جائیں۔
پہلے پہل ایف بی آر نے ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے عمل کو سہل بنانے کے لیے ویب سائٹ لانچ کی تھی، اور ٹیکس سے متعلق تمام فارم اور معلومات کو ٹیکس پورٹل پر مہیا کیا تھا۔ تاہم یہ پورٹل خاصا ٹیکنیکل تھا، اور درست فارم ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے ٹیکس سسٹم کی معلومات ہونا لازم ہوتا تھا۔

ٹیکس ایڈوائزر محمد جمال نے بتایا کہ ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے حوالے سے سسٹم جتنا سادہ اور سہل ہو چکا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

بعد ازاں اس مرحلے کو مزید آسان بناتے ہوئے موبائل ایپلیکیشن لانچ کی گئی جس نے ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے لیے فارم پر کرنے کی جھنجھٹ کو ختم کر کے معاملات کمپیوٹرائزڈ کر دیا۔
اب شہری موبائل پر ٹیکس آسان ایپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کر کے اپنا ٹیکس پیئر سٹیٹس معلوم کرنے کے علاوہ پرسنل ٹیکس، انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، ویریفیکیشن اور اس سے منسلک تمام کام خود انجام دے سکتے ہیں۔ انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کا پراسیس سوال جواب کی صورت میں انجام دیا جاتا ہے، صارف دیے گئے خانوں میں جوابات لکھتا جاتا ہے جو تمام ہی رقم سے متعلق ہوتے جو اس نے کمائی یا خرچ کی۔
محمد جمال کا بتایا کہ ایف بی آر کی جانب سے ٹیک آسان ایپلیکیشن آنے کے بعد سے ان کے تنخواہ دار کلائنٹس میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار ٹیکس فائلرز میں سے ہر دوسرے کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ خود ہی ریٹرن فائل کرے، لیکن جب خرچ اور کمائی ریکنسائل نہیں ہوتی یا مزید ٹیکس مانگا جاتا ہے تو پھر وہ کسی وکیل یا ماہر کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔
ایف بی آر کی ٹیکس آسان ایپلیکیشن میں دیے گئے خانوں میں سال بھر میں ہوئے لین دین، کمائی گئی رقم کے علاوہ اخراجات، تحائف اور خریداری کے کوائف بھی درج کرنے ہوتے ہیں، لیکن بیشتر نوکری پیشہ افراد ان تمام چیزوں کا منظم حساب نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ گوشوارے جمع کرتے وقت ان کی کمائی اور خرچ کی تفصیلات میں تضادات رہتے ہیں، بلآخر انہیں کسی ماہر کی خدمات لینی پڑتی ہیں۔

اس وقت مارکیٹ میں ٹیکس ریٹرن فائل کرانے کے دو ہزار سے 10 ہزار لیے جا رہے ہیں۔ فوٹو: اے پی پی

ٹیکس گوشوارے جمع کرنے والے یہ ماہر بینک سٹیٹمنٹ اور سیلری سٹیٹمنٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا حساب کتاب جوڑ دیتے ہیں کہ تمام تضادات نمٹ جائیں، یہ کر کے گوشوارے جمع کر دیے جاتے ہیں اور صارف مطمئن ہو جاتا ہے۔ اس وقت مارکیٹ میں اس کام کے 2 ہزار سے 10 ہزار لیے جا رہے ہیں۔ یہ ون ٹائم ڈیل ہوتی ہے، اور ہر سال ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کی آخری تاریخوں کے قریب ایسے ’ماہرین‘ کی مانگ اچانک بڑھ جاتی ہے۔
حانیہ اسد ورکنگ وومن ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کچھ برسوں سے ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے بارے میں اس قدر تشہیر کے بعد انہوں نے بھی ریٹرن فائل کرنا شروع کر دیے ہیں۔ تاہم وہ واضح طور پر نہیں بتا سکیں کہ انکم ٹیکس ریٹرن کیا ہوتے ہیں، بس وہ ایک پہچان کے بندے کو متعلقہ دستاویزات دیتی ہیں جو ہر سال کچھ جمع تفریق کر کے اندازے سے گوشوارے جمع کر دیتا ہے۔ ’ہر سال مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا میں نے کوئی گاڑی یا مکان خریدا، میرا جواب نفی میں ہوتا ہے، اور بعد میں مجھے بتا دیتے ہیں کہ ریٹرن فائل ہو گئے۔‘
ارمغان علی چھوٹے پیمانے پر کمپنیوں کو آئی ٹی سروس مہیا کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کلائنٹس کے استفسار پر وہ ٹیکس فائلر بنے تا کہ پیمنٹ میں سے کٹوتی رک سکے تاہم دو سال سے ٹیکس فائلر ہونے کے باوجود انہیں واضح نہیں ہو سکا کہ اس سب کی آخر ضرورت کیا ہوتی ہے اور اس میں کیا جمع ہوتا۔ ’مجھے اتنا معلوم ہے کہ فائلر بننے سے پیمنٹ میں کٹوتی رک جاتی، جس سے آگے کا نہ کبھی وکیل نے سمجھایا نہ میں نے جاننے کی کوشش کی۔‘
حکومت گزشتہ کچھ عرصے سے اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ ٹیکس کا تمام سلسلہ خودکار ہو جائے، لیکن اس کے لیے بہت سارے متعلقہ اداروں کے نظام کو جوڑنے کی ضرورت پڑے گی جو کہ تا حال ممکن نہیں ہو سکا۔
محمد جمال نے اس بارے میں بتایا کہ پراپرٹی اور گاڑیوں کی خریداری کا ڈیٹا تو سسٹم میں خودکار طور پر آ جاتا ہے، آہستہ آہستہ تمام تر پیمنٹ سسٹمز کا ڈیٹا یکجا کیا جا رہا ہے، اور امید ہے کہ دو سے تین سال میں ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کا تمام سسٹم خودکار ہو جائے گا۔

شیئر: