Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نور مقدم قتل کیس کے تمام 12 ملزمان پر فرد جرم عائد کر دی گئی

اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے نور مقدم قتل کیس کے تمام ملزمان پر فرد جرم عائد کر دی ہے تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا ہے۔ 
جمعرات کو اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں سماعت کے آغاز پر جب وکیل رضوان عباسی نے اپنے دلائل دینا شروع کیے تو ملزم ظاہر جعفر نے کہا کہ ’جج، کیا میں آزادانہ طور پر بول سکتا ہوں؟ مجھے آزادانہ طور پر بولنے کا حق ہے۔‘
ملزم نے سوال پوچھتے ہوئے کہا کہ ’جج کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ آپ مجھ پر فرد جرم عائد کر رہے ہیں؟ مجھے پوچھنا تھا کہ آپ مجھ پر چارج ڈال رہے ہیں کہ نہیں؟‘ ملزم نے کہا کہ وہ اپنا جرم تسلیم نہیں کرتے کیونکہ وہ اپنے گھر پر تھے اور دوسرے لوگ ان کے گھر میں گھس آئے تھے۔
ملزم نے کہا کہ ’میں نے ان لوگوں (تھراپی ورکس) سے کہا کہ وہ باہر انتظار کریں لیکن وہ اندر گھس آئے۔‘
دوران سماعت ایک اور موقع پر ظاہر جعفر نے تسلیم کیا کہ ان کی نور مقدم سے لڑائی ہوئی تھی اور ان سے غلطی ہو گئی جس پر وہ معافی چاہتے ہیں۔
ملزم نے کہا کہ وہ جیل میں نہیں جانا چاہتے وہاں پر محافظ اور دوسرے لوگ ان پر تشدد کرتے ہیں اور اس طرح ان کی زندگی ضائع ہو رہی ہے۔
مزید پڑھیں
ایک اور موقع پر جج کو مخاطب کرتے ہوئے ملزم نے کہا کہ وہ معافی چاہتے ہیں اور ان کی زندگی اب جج کے ہاتھوں میں ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ کمرہ عدالت میں گھٹنوں پر جھک گئے اور گڑ گڑا کر کہا کہ ’میں اپنی زندگی جیل میں ضائع نہیں کر سکتا۔ میں شادی کرنا چاہتا ہوں، بیوی اور بچے چاہتا ہوں۔‘
ملزمان کو عدالت لایا گیا تو ظاہر جعفر کے بال ترشے ہوئے تھے۔ ملزم نے سرمئی رنگ کا ٹراوزر، چیک دار قمیض اور اس کے اوپر سی گرین رنگ کا ہلکا سویٹر پہنا ہوا تھا۔
ان کے ساتھ ہتھکڑیوں میں خاکی شلوار قمیص میں ملبوس ان کے والد اور شریک ملزمان گھریلو ملازمین بھی تھے۔ دوران سماعت ایک موقع پر ملزم کرسی پر بیٹھی اپنی والدہ کے پاس گئے اور ان سے کچھ دیر سرگوشیاں کرتے رہے۔ 
بعد ازاں اردو نیوز کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ اپنی والدہ کو بتا رہے تھے کہ تین چار ماہ سے وہ کن حالات میں جیل میں بند ہیں۔ 

سماعت کے دوران ملزم ظاہر جعفر اپنے والد کے وکیل کے دلائل میں بار بار مداخلت کرتے رہے (فوٹو: سکرین گریب)

خیال رہے کہ پیر کو سپریم کورٹ میں سابق سفیر شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کے قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ مقدمات میں شفاف ٹرائل کا حق لازمی دیا جائے تاہم مقدمہ نمٹانے میں تاخیر سے اضطراب بڑھتا ہے۔
مرکزی ملزم کے والدین نے سپریم کورٹ میں درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف دائر کر رکھی ہے۔
سپریم کورٹ میں ملزمان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ تاحال فرانزک رپورٹس موصول نہیں ہوئیں اور دو ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کے حکم سے شفاف ٹرائل کا حق متاثر ہو سکتا ہے۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر استغاثہ سے ذاکر جعفر اور عصمت ذاکر کی حد تک شواہد پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 18 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزم کے والدین کی ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو دو ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

شیئر: