Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اجتماعات میں کورونا کی پابندیوں میں نرمی کا خیرمقدم

میرا ملک کورونا کے نادیدہ دشمن کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)
کورونا کے باعث سامنے آنے والے بے لوث جذبوں کو سعودی عرب میں بھی بہت یاد کیا جائے گا۔
کورونا کی عالمی وبا کے پھیلاو کومحدود رکھنے کے لیے سماجی اجتماعات، شادی تقریبات اور پارٹیوں وغیرہ پر بڑی حد تک پابندی عائد تھی۔
عرب نیوز کےمطابق ایک لمبے عرصے تک لوگوں نے محسوس کیا کہ وہ کون سے ایسےکام ہیں جو  انجام دینے کے قابل نہیں تھے۔
کورونا وائرس کے باعث عام لوگوں نےمعمول کی ذمہ داریوں کی تعداد میں کمی کردی تھی۔

شہریوں کو خوشی ہوگی کہ عام سماجی اجتماعات میں واپس آئیں گے۔ (فوٹو عرب نیوز)

سماجی تقریبات میں تعداد کی حد پر لگی پابندیوں کے خاتمے کا اعلان سنتے ہی سکول کے ایک ریٹائرڈ پرنسپل حامد صادق البکری نے سکون کا سانس لیا۔ اس نے قبل انہوں نے محدود تعداد میں مہمانوں کے ساتھ اپنے بیٹے کی شادی کی تقریب کے لیے تیاری کی تھی۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا  کہ یہ اعلان سننے کے بعد مجھے لگتا ہے کہ میں دنیا میں سب سے اہم ہوں کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میرا ملک کورونا وائرس کے نادیدہ دشمن کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کورونا وبا کے اثرات کو ممکنہ حد تک کم سے کم کرنے کی عظیم کوششوں سعودی شہری  اور مقیم غیر ملکی بھی مکمل حصہ دار رہے ہیں۔
حامد صادق نے کہا کہ اس اعلان کے بعد وہ صرف قریبی خاندان کے چند  افراد  اور یہاں تک کہ قریبی دوستوں کو مدعو کرنے کی شرمندگی سے بچ جائیں گے۔
اب وہ اپنی خاندانی تقریب میں زیادہ سے زیادہ افراد  کو مدعو کر سکتے ہیں جیسا کہ وہ اس طرح کے خاص مواقع کو منانے میں سب کو دعوت دینا  چاہتے ہیں۔

تقریبات میں شرکت کی سہولت ویکسین کی مکمل ڈوز لینے والوں کے لیے ہے۔ (فوٹو ٹوئٹر)

ہم سعودی عرب میں رہتے ہوئے دوستوں اور رشتہ دار وں کی جانب سے مدعو کئے جانے پر ان کی پارٹیوں اور سماجی محفلوں میں شرکت کرتے ہیں۔ ہماری دعوتوں میں جتنے زیادہ مہمانوں کی آمد ہوتی ہے ہم اتنے ہی خوش ہوتے ہیں۔
سعودی شہری سلیم الزہرانی کا کہنا ہے کہ آٹھ ماہ قبل میری بیٹی کی شادی ہوئی تھی اور شادی کی دعوت میں  بہت کم رشتہ داروں کی  شرکت کے باعث انتہائی پریشان  ہوا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اگر  کورونا وبا کے باعث شادی کی تقریبات میں مہمانوں کی شمولیت کی تعداد کی حد مقرر نہ ہوتی تو میں  سو سے زیادہ  دوستوں اور رشتہ داروں کو اپنی بیٹی کی شادی میں شرکت کے لیے مدعو کرتا۔
زیادہ افراد کو مدعو کرنا  ہماری ثقافت کا حصہ ہے کہ دلہن اپنے شوہر کے ساتھ رخصت ہوتی ہے، اس موقع پر زیادہ سے زیادہ رشتے دار اور خاندان کے دوست مدعو  ہوتے ہیں جو کہ  دلہن کے لیے بھی باعث فخر رسم ہے۔

کورونا  کے باعث لوگوں نے معمول کی ذمہ داریوں میں کمی کردی تھی۔ (فوٹو ٹوئٹر)

خوش قسمتی سے میری بیٹی نے اس عالمی صورتحال کی پیچدگی کو سمجھنے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔
میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سعودیوں کا سماجی تعلق بہت مضبوط ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم عام طور پر کسی سماجی تقریب کو بڑی تعداد میں مناتے ہیں۔
پابندی کے خاتمے کے ساتھ  سعودیوں کو خوشی ہوگی اور وہ اپنے عام سماجی اجتماعات میں واپس آئیں گے جس کے دوران وہ آزادانہ طور پر جمع ہوسکتے ہیں اور خوشی منا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے یقین ہے کہ ہم سب  اپنی صحت کے بارے میں محتاط رہیں گے۔
سماجی تقریبات میں شرکت کے نئے قوانین صرف ان افراد پرلاگو ہوتے ہیں جنہیں مکمل طور پر کورونا ویکسین دی گئی ہے جو کہ تقریبا 20.6 ملین ہے۔
 

شیئر: