Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آکوس معاہدے سے ایٹمی آبدوزیں بنانے کی دوڑ شروع ہو جائے گی: اقوام متحدہ

آسٹریلیا دنیا کا پہلا ملک ہوگا جو ایٹمی ہتھیار نہ ہونے کے باوجود ایٹمی آبدوزیں بنا سکے گا۔ (فوٹو اے ایف پی)
اقوام متحدہ کے نیوکلیئر سرگرمیوں کی نگرانی کرنے والے ادارے کے سربراہ نے کہا ہے کہ آسٹریلیا کے ساتھ نیوکلیئر آبدوز کے معاہدے کو دیگر ممالک بھی مثال بنا سکتے ہیں اور اس سے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی نئی دوڑ اور قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔
واضح رہے کہ آکوس معاہدے کے تحت امریکہ اور برطانیہ ایٹمی آبدوزیں بنانے کے لیے آسٹریلیا کی مدد کریں گے۔
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رفائل گروسی نے کہا ہے کہ انہوں نے آکوس معاہدے کے قانونی پہلوؤں اور اس کے محفوظ ہونے کا جائزہ لینے کے لیے ایک سپیشل ٹیم بھیجی ہے۔
اگر اس معاہدے پر عملدرآمد ہوتا ہے تو آسٹریلیا دنیا کا پہلا ملک ہوگا جو ایٹمی ہتھیار نہ ہونے کے باوجود ایٹمی آبدوزیں بنا سکے گا۔ اس معاہدے سے 1968 میں ہونے والی ’نیوکلیئر نان پرولیفیریشن ٹریٹی‘ پر بھی سوال اٹھیں گے۔
آئی اے ای اے اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ایٹمی آبدوز بنانے کے لیے استعمال ہونے والے میٹریل سے ایٹمی ہتھیار نہ بنائے جائیں۔
’ہمیں ایسے معاہدے کرنے ہوں گے جس سے یقینی بنایا جا سکے کہ انہیں ٹیکنالوجی یا میٹریل کے حوالے سے جو کچھ بھی ملتا وہ محفوظ ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس بات کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ دیگر ممالک آکوس معاہدے کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی ایٹمی آبدوزیں بنا سکتے ہیں۔‘
کینیڈا اور جنوبی کوریا بھی ایٹمی آبدوزیں بنانا چاہتے ہیں جو دوسروں کے مقابلے میں خاموشی سے زیادہ عرصے تک پانی کے نیچے رہ سکیں۔ برازیل بھی نیوکلیئر سب میرین کے پراجیکٹ پر کام کر رہا ہے۔
رفائل گروسی نے کہا کہ 2018 میں ایران نے آئی اے ای اے کو اطلاع دی تھی کہ وہ ’نیوکلیئر پروپلشن پروگرام‘ پر کام شروع کرنا چاہتا ہے۔
گذشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران ملاقاتوں میں ایرانی حکام نے آکوس معاہدے کو بنیاد بناتے ہوئے ایٹمی آبدوزیں بنانے کی بات کی تھی۔

شیئر: