Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماریہ میمن کا کالم: وٹس دا پلان خان صاحب؟

کب اور کیسے قیمتیں واپس آئیں گی اس کا کوئی اندازہ یا وقت نہیں بتایا جا رہا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
دارالحکومت خصوصی اور باقی ملک عمومی طور پر اضطراب میں ہے۔ اس اضطراب کی وجوہات سیاسی بھی ہیں اور غیر سیاسی بھی، معاشی بھی ہیں اور انتظامی بھی۔ اور ہر خاص و عام کی زبان پر ایک ہی سوال ہے، واٹس دا پلان خان صاحب!  
یہ سوال ساری حکومت، پارٹی یا کابینہ سے بھی کیا جا سکتا ہے مگر پچھلے چند ہفتوں نے خصوصاً یہ ثابت کیا ہے کہ پارٹی یا کابینہ یا پھر اتحادی یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں کہ آگے پلان کیا ہے۔ حکومت کے ترجمان اسی اعتماد اور جارحیت کے ساتھ میڈیا پر اپوزیشن پر لفظوں کے تیر برسا رہے ہیں، مگر جب بات آگے کے پلان کی ہو تو ان کی طرف سے بھی کوئی ایسی چیز سامنے نہیں آتی جس کو حتمی کہا جا سکے۔
چاہے میدان سیاسی ہو یا اقتصادی، اتحادی اور ٹیکنوکریٹس وزرا بھی اِتنے ہی بے خبر ہیں۔ اسی لیے براہ راست سوال ضروری ہو گیا ہے کہ واٹس دا پلان خان صاحب؟  
معاشی اور معاشرتی حالات کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ معیشت معاشرت کو متاثر کرتی ہے اور معاشرت سیاست کو۔ اس میں تو اب کسی کو بھی شک نہیں کہ ہر حوالے سے مہنگائی کی سطح حالیہ تاریخ میں بلند ترین ہے۔ اس کے واضح اشاریے تیل اور ڈالر کی قیمت میں ظاہر ہو رہے ہیں مگر اشیائے خوردونوش کو بھی پر لگ چکے ہیں۔
آگے بجلی اور گیس کے مہنگا ہونے کی بھی شنید ہے۔ عالمی منڈی کا حوالہ دیا جاتا ہے مگر کب اور کیسے قیمتیں واپس آئیں گی اس کا کوئی اندازہ یا وقت نہیں بتایا جا رہا۔ یہ تو عوام کے مسائل ہیں دوسری طرف حکومت کے اپنے مسائل اس کے علاوہ ہیں۔
آئی ایم ایف کی طرف سے منفی خبریں ہیں تو فیٹف کی طرف سے بھی ایک بار پھر پاکستان کو ریلیف نہیں مل سکا ہے۔ معاشی پالیسی کا تعلق خارجہ پالیسی سے ہے، وہاں پر علیحدہ کنفیوژن ہے۔ کیا حکومت کے پاس اگلے دو سال میں ان حالات میں بہتری کا کوئی عملی پلان ہے؟ اس کا جواب وزیراعظم ہی دے سکتے ہیں۔  

مہنگائی کی سطح حالیہ تاریخ میں بلند ترین، اس کے واضح اشاریے تیل اور ڈالر کی قیمت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

معاشی حالات کا براہ راست اثر سیاست پہ ہے۔ اگر آج فوری انتخابات ہوں تو شاید حکومت کے لیے مشکل ترین حالات ہوں۔ مہنگائی اور کارگردگی پر بھی سوال ہی سوال ہیں۔ پھر سیاست کا تعلق گورننس سے ہے۔ مقامی حکومتوں پر کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔
پنجاب میں کوئی بھی مسئلہ ہو تو کمک وفاق سے بھیجی جاتی ہے۔ بلوچستان میں حکومت کے اپنے اتحادی ایک دوسرے پر عدم اعتماد کر رہے ہیں اور وفاق کی طرف سے کوئی واضح پالیسی نظر نہیں آ رہی۔
دوسری طرف وفاق میں سول ملٹری تعلقات پر چہ مگوئیاں ختم ہونے میں نہیں آ رہیں اور اس میں بھی کابینہ اور حکومتی زعما اندھیرے میں نظر آتے ہیں۔ کیا اگلے دو سال اب یہی بے یقینی کا سلسلہ چلے گا؟  
سیاست میں اپوزیشن کا بیانیہ کافی عرصے سے بیک فٹ پر تھا مگر ایک طرف مہنگائی اور دوسری طرف حکومت کا اپنا پیدا کردہ اضطراب، اپوزیشن کی صفوں اور لہجے دونوں میں جان پڑتی نظر آ رہی ہے۔

معیشت معاشرت کو متاثر کرتی ہے اور معاشرت سیاست کو۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

مسلم لیگ کے دو دھڑے تو نمایاں ہیں مگر دونوں اپنی اپنی جگہ متحرک ہیں۔ اگر دونوں دھڑے اسی طرح گڈ اور بیڈ کھیلتے کھیلتے اپنا ووٹ بینک مستحکم کرتے رہے اور آخر میں ایک ہو گئے تو پنجاب میں پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم ملنے میں شک نہیں رہے گا۔
سیاست کو پی ٹی آئی اور وزیراعظم نے احتساب سے جوڑ رکھا تھا مگر اب نیب آرڈیننس میں ترامیم کے بعد کوئی نیا سیاسی کیس بنتا نظر نہیں آ رہا اور موجودہ کیسز کا مستقبل قریب میں فیصلہ ہونا مشکل ہے۔ ان حالات میں جہاں اپوزیشن ابھی تک اپنی طاقت کو سنبھالے ہوئے ہے اور اس کے اتحادی بھی نئے انتخابات سے اتفاق کر رہے ہیں جبکہ پنجاب میں اکثریت چند ووٹوں کی محتاج ہو، وہاں پی ٹی آئی کا سیاسی پلان ہے کیا اس کا جواب خان صاحب ہی دے سکتے ہیں۔
معیشت ہو یا سیاست، گورننس ہو یا اداروں کے ساتھ تعلقات، ایسا لگتا ہے کہ حکومت ایک فیصلہ کن دوراہے پر پہنچ چکی ہے۔ اس دوراہے پر کابینہ اور دیگر ذمہ داران بھی مخمصے میں ہیں۔ اس فیصلہ کن گھڑی میں سب وزیراعظم کی طرف دیکھ رہے ہیں اور یہی  سوال کر رہے ہیں کہ واٹس دی پلان خان صاحب؟

شیئر: