Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میر عبدالقدوس بزنجو بلامقابلہ وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب، حلف اٹھا لیا

جام کمال کے مستعفی ہونے کے بعد قائد ایوان کے لیے عبدالقدوس بزنجو واحد امیدوار تھے(فوٹو: جام کمال ٹوئٹر)
بلوچستان عوامی پارٹی کے میر عبدالقدوس بزنجو نے بلوچستان کے 18 ویں وزیراعلیٰ کے طور پر حلف اٹھا لیا ہے۔
گورنر ہاؤس کوئٹہ میں جمعہ کے روز حلف برداری کی تقریب میں میر عبدالقدوس بزنجو نے نئے وزیر اعلیٰ بلوچستان کے عہدے کا حلف اٹھایا ہے۔ گورنر بلوچستان سید ظہور احمد آغا نے میر عبدالقدوس بزنجو سے حلف لیا۔
اس موقع پر گورنر پنجاب چوہدری سرور جاوید، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری، قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین، مختلف سیاسی تنظیموں کے رہنما و کارکنان سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
جمعے کے روز بلوچستان اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب میں عبدالقدوس بزنجو نے 39 ووٹ حاصل کیے تھے۔ انہیں بلوچستان عوامی پارٹی، تحریک انصاف، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی کے اراکین نے ووٹ دیے۔
اپوزیشن کے اتحادی آزاد رکن اسمبلی رئیسانی نے پولنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ سابق وزیراعلیٰ ثنا اللہ زہری نے عبدالقدوس بزنجو کو ووٹ دیا۔ 
یاد رہے کہ اس سے قبل جنوری 2018 میں عبدالقدوس بزنجو نواب ثنا اللہ زہری کی حکومت کو ہٹا کر وزیراعلیٰ بنے تھے۔ 
حزب اختلاف کی جماعتوں جمعیت علما اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ 
جام کمال کے مستعفی ہونے کے بعد قائد ایوان کی خالی نشست کے لیے عبدالقدوس بزنجو واحد امیدوار تھے۔ ان کے مقابلے میں کسی نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے، لیکن قواعد و ضوابط کے مطابق مقابلے میں کوئی امیدوار سامنے نہ آنے کے باوجود قائد ایوان کے لیے ووٹنگ اور مطلوبہ 33 ووٹ لینا ضروری تھے۔
حلف برداری جمعہ کی شام کو گورنر ہاؤس میں ہو گی جس میں گورنر بلوچستان ظہور احمد آغا عبدالقدوس بزنجو سے حلف لیں گے۔ 
عبدالقدوس بزنجو دوسری مرتبہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ہیں۔

جنوری 2018 میں عبدالقدوس بزنجو نواب ثنا اللہ زہری کی حکومت کو ہٹا کر وزیراعلیٰ بنے تھے (فوٹو: ٹوئٹر)

عبدالقدوس بزنجو 2018 کے انتخابات میں آواران اور پنجگور سے تیسری مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔
انہوں نے جام کمال کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کی مہم میں کلیدی کردار ادا کیا۔
جام کمال کے خلاف اپنی ہی جماعت بی اے پی نے اتحادی جماعتوں کے بعض اراکین کے ساتھ مل کر 12 اکتوبر کو تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی، تاہم جام کمال نے 24 اکتوبر کو قرارداد پر رائے شماری سے قبل ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔ 
حزب اختلاف کی جماعتیں جمعیت علما اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ نے جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں عبدالقدوس بزنجو کا ساتھ دیا تھا مگر انہیں قائد ایوان کی حیثیت سے ووٹ نہیں دیا۔ تینوں جماعتوں نے بدستور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا اعلان کیا ہے۔ 
 سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان اور اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے نعیم بازئی بھی قائد ایوان کے انتخاب کے لیے ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔

شیئر: