Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آج کل ننانوے فیصد بوگس اور ردی سکرپٹ لکھے جا رہے ہیں: نادیہ افگن

اداکارہ نادیہ افگن کا شمار ان اداکاراؤں میں ہوتا ہے جو بہت سلیکٹیو کام کرتی ہیں لیکن جب وہ سکرین پر آتی ہیں تو اپنی جاندار اداکاری سے چھا جاتی ہیں۔
ویسے تو نادیہ افگن زیادہ تر کامیڈی ڈراموں میں نظر آتی ہیں لیکن سنجیدہ کردار میں بھی وہ خود کو اس طرح ڈھال لیتی ہیں کہ ان کا رول مرکزی کردار پر بھی حاوی ہو جاتا ہے۔
نادیہ افگن آج کل ڈرامہ ’پری زاد‘ میں ایک خاتون پولیس آفیسر کے کردار میں نظر آ رہی ہیں، انہوں نے اس کردار کے لیے ہامی کیوں بھری اور وہ پاکستانی ڈراموں کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہیں یہ جاننے کے لیے اردو نیوز نے ان سے بات چیت کی ہے۔
نادیہ افگن نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میں نے بہت عرصہ بہت کام کیا، کامیڈی کی تو پھر سارے کامیڈی رول مل رہے تھے منفی (کردار) کیا تو نیگیٹو کردار ملنا شروع ہو گئے میں چاہتی ہوں کہ تھوڑا مختلف کام کروں کوئی مضبوط رول ہو جو کرنے کے قابل ہو۔ جیسے ’سنو چندا‘ میں شاہانہ کا کردار مختلف تھا۔ اسی طرح ابھی میں نے ’پری زاد‘ کیا جس میں میں پولیس افسر بنی ہوئی ہوں۔
اس سوال کے جواب میں کہ وہ بہت سلیکٹیو کام کیوں کرتی ہیں اور چھوٹی سکرین پر زیادہ نظر کیوں نہیں آتیں، نادیہ افگن نے بتایا کہ ’زیادہ تر جو سکرپٹس آتے ہیں وہ دقیانوسی قسم کے ہوتے ہیں وہی ساس بہو کے جھگڑے، نند ظالم ہے بس بری ہے تو مجھے وجہ سمجھ نہیں آتی اور میں نے اب یہ سوچا ہے کہ بندہ کم کام کرے لیکن اچھا کرے۔‘

نادیہ افگن کہتی ہیں کہ ’میں نے اب یہ سوچا ہے کہ بندہ کم کام کرے لیکن اچھا کرے۔‘ (فوٹو: نادیہ افگن انسٹاگرام)

انہوں نے کہا کہ ’میں ایک اداکار ہوں اور ہر اداکار کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی مختلف کردار میں نظر آئے اور جتنا بہتر نبھا سکتا ہے نبھائے۔ جیسے ڈرامہ پری زاد میں جو ڈی ایس پی ہے میں نے سوچا کہ وہ کس طرح کی ہوگی، مجھے بہت ریسرچ کی اور انگریزی فلموں اور سیریز وغیرہ میں جاسوس بھی دیکھے اور پھر میں نے سوچا اگر میں پولیس والی ہوتی تو میں کس طرح چلتی، میں نے بڑا خیال رکھا ہر چیز کا اور مجھے یہ کردار ادا کر کے بہت مزہ آیا۔‘
نادیہ افگن نے ماضی میں کئی کامیڈی ڈراموں میں کام کیا جو اپنے وقت کے بہترین ڈرامے سمجھے جاتے ہیں۔ نادیہ سمجھتی ہیں کہ وہ بہترین دور تھا جب بہت کچھ اچھا پروڈیوس ہو رہا تھا۔
ایک وقت آیا تھا لاہور میں ہم بہت سارے نئے بچے اٹھے تھے اور ہم لوگوں نے کام کرنا شروع کیا تھا۔ ان دنوں بہت ویڈیوز بن رہی تھیں، بہت ساری کامیڈی ہو رہی تھی ہوبہو، فیملی فرنٹ، شاشلک، تین بٹا تین۔ وہ ایک بہت اچھی سی ویو آئی تھی جس میں بہت اچھے اداکار، رائٹرز، پروڈیوسرز اور گلوکار تھے۔ میں ان دنوں کو بہت یاد کرتی ہوں اور میں یہ سوچتی ہوں کہ ہم نے کتنا اچھا وقت گزارا ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ آج کل کے بننے والے ڈراموں سے مطمئن ہیں تو نادیہ کا کہنا تھا کہ ’آج کل فیصد جو سکرپٹ لکھے جا رہے ہیں وہ بہت بوگس اور ردی ہیں اور جو اچھے ڈرامے بن رہے ہیں پتا نہیں ان کی ریٹنگز نہیں آتیں لوگ دیکھنا نہیں چاہتے ہیں۔‘

نادیہ افگن کا کہنا ہے کہ ’میں چاہتی ہوں کہ مختلف کام کروں کوئی مضبوط رول ہو جیسے ’سنو چندا‘ میں شاہانہ کا کردار مختلف تھا‘ (فوٹو: نادیہ افگن انسٹاگرام)

ان کے بقول ‘ہمیں ایک اچھی نئی سوچ کی ضرورت ہے جو کچھ ہو رہا ہے وہ دکھائیں لیکن اچھے طریقے سے دکھائیں۔ خاص طور پر خواتین کے لیے مضبوط کردارکیوں نہیں ایسا ہو سکتا کہ عورتوں کے لیے کردار لکھے جائیں۔ صرف یہ نہیں ایک ڈرامہ بنایا جا رہا ہے جس میں ہیرو ہے اور اس سے شادی نہیں ہو رہی ہے۔ زندگی میں شادی کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں ہیں۔ ہمیں مختلف کہانیاں لکھنے کی ضرورت ہے۔‘
نادیہ افگن کہتی ہیں کہ انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ فلاں کریکٹر کے لیے انہیں ایوارڈ ملے، ’میں اچھی کوشش اور محنت کرتی ہوں لوگ سراہتے ہیں میرے لیے یہی کافی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ مجھے کریئر کے بہت شروع میں ”شاکر “ کے لیے ایک ایوارڈ ملا تھا اس کے بعد ”سنو چندا“ کے لیے ایوارڈ ملا ، ’سنو چندا‘ کا ایوارڈ مجھے دینا بنتا تھا کیونکہ یہ ڈرامہ پوری دنیا میں بہت مشہور ہوا تھا۔‘

شیئر: