Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سی پیک ’صرف چین کے لیے‘ کا تاثر غلط، امریکہ بھی شامل ہو: سربراہ سی پیک اتھارٹی

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سی پیک خالد منصور نے کہا ہے کہ وہ یہ غلط تاثر زائل کرنا چاہتے ہیں کہ سی پیک منصوبہ صرف چین کے لیے ہے بلکہ امریکہ اور دیگر ممالک سے بھی اس پر بات ہوئی ہے اور انہیں بھی سی پیک منصوبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے۔
اسلام آباد میں اردو نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں سی پیک اتھارٹی کے نئے سربراہ خالد منصور کا کہنا تھا کہ ان کی سی پیک کے حوالے سے امریکہ کے کمرشل قونصلر سے بھی بات ہوئی ہے۔
’یہ غلط تاثر ہے کہ سی پیک صرف چین کے لیے ہے ہم رفتہ رفتہ اس کو زائل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ سی پیک سب کے لیے کھلا ہے۔ حتی کے امریکہ کے کمرشل قونصلر نے بھی مجھ سے بات چیت کی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ بھی آ کر سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھائے کیونکہ اس میں جو مالی فوائد ہیں وہ سب کے لیے دستیاب ہیں۔‘
اس سوال پر کہ کیا امریکہ چین کی شمولیت کے باعث سی پیک کے حوالے سے مزاحمت نہیں کر رہا، ان کا کہنا تھا کہ ’مزاحمت تو مجھے نہیں پتا ہے یا نہیں ہے۔ ابھی تو ہم بات سرمایہ کاری کی کر رہے ہیں۔ اب اگر پاکستان کے اندر امریکہ سے کوئی سرمایہ کار آنا چاہتا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کتنے زیادہ ہیں امریکہ اور یورپ میں اور وہ بہت خوشحال پاکستانی ہیں، اب وہ امریکی قومیت رکھتے ہیں۔ اگر وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے تو بالکل آئیں۔‘

کن کن ممالک نے سی پیک میں دلچسپی ظاہر کی ہے؟

خالد منصور کا کہنا تھا کہ سی پیک پوری دنیا سے سرمایہ کاروں کے لیے اوپن ہے۔ ’سی پیک کو اگر دیکھیں تو چین کی بھی یہ خواہش تھی کہ سی پیک راہداری کے ذریعے خطے میں رابطے بڑھیں، اس میں افغانستان بھی ہے پھر گوادر سے مشرق وسطیٰ سے جڑتے ہیں، پھر آگے جا کر یورپ اور افریقہ سے منسلک ہوتے ہیں۔
ہمارے پاس اب سی پیک اتھارٹی میں مختلف سفیروں نے دلچسپی ظاہر کرنا شروع کی ہے اور ہم نے ان کو بھی کہا ہے کہ ہمارے اکنامک زونز میں سرمایہ کاری کریں۔ ہمارے پاس نو اکنامک زونز ہیں سی پیک کے تحت ان میں سے پانچ بہت تیزی سے تیار ہو رہے ہیں۔۔انہوں نے واضح کیا کہ دلچسپی ظاہر کرنے والے چند یورپی ممالک بھی ہیں جیسا کہ پولینڈ اور جرمنی۔ اس کے علاوہ جنوبی کوریا نے دلچسپی ظاہر کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سی پیک فیز ٹو میں 10 جوائنٹ ورکنگ گروپ مختلف شعبوں میں بنائے گئے ہیں جیسے کہ زراعت، ادویات، آئی ٹی، ٹیکسٹائل اور فارماسوٹیکل کے شعبے میں صعنت لگائی جائے گی۔

سی پیک نے بجلی کی کمی کا مسئلہ حل کر دیا

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سی پیک کے مطابق سی پیک سے قبل پاکستان کا بڑا مسئلہ بجلی کی کمی تھا۔ 12 سے 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ تھی۔ ہماری صنعت کسی حد تک بند ہو گئی تھی۔ ہمیں 17 ہزار میگاواٹ کی ضرورت تھی اور ہمیں سستی بجلی بنانی تھی۔ اسی لیے کوئلے سے بجلی بنانے کے منصوبے بھی لگائے گئے۔ سولر، ونڈ اور ہائیڈل کے منصوبے بھی بنائے گئے۔ فیز ون میں سارا کام ہوا اور اس کے اندر پانچ ہزار تین سو میگاواٹ کے پراجیکٹ لگے۔ اس کے بعد ساڑھے تین ہزار کے پراجیکٹ اگلے نو سے 12 ماہ میں مکمل ہو جائیں گے۔ تھر کا کوئلے کا خزانہ دنیا کا ساتواں بڑا خزانہ ہے، اس کی مدد سے پاکستان کو توانائی کے شعبے میں سکیورٹی حاصل ہو جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ تھر میں کوئلے کی کان تیار ہو چکی ہے ۔ دو بجلی کے پراجیکٹ لگ چکے ہیں اور دو اگلے سال تک مکمل ہو جائیں گے۔

گوادر میں رہنے والوں کے مسائل حل کرنے کے لیے وزیراعظم کے احکامات


’گوادر کے شہریوں کے بجلی کے مسئلے ہوں یا پانی کے، سب حل کیے جائیں گے۔‘ (فوٹو: روئٹرز)

ان کا کہنا تھا کہ گوادر دنیا کی بہترین پورٹ ہو گی۔ جس میں ایک بڑے ایریا پر فری زون بن رہا ہے۔ سی پیک کے فیزٹو میں چین کی وہ انڈسٹری جس میں زیادہ لیبر کی ضرورت ہوتی ہے اسے گوادر میں لایا جائے گا اور فری زون میں اس انڈسٹری کو دوبارہ سے لگایا جائے گا اور پھر اس سے ایکسپورٹ کریں گے۔
دوسرا جب ہم بڑی انڈسٹری لے کر آ جائیں گے چاہے زراعت ہو، انرجی سیکٹر ہو، پیٹروکیمیکل، فارماسوٹیکل، ٹیکسٹائل ہو یہ سب صنعت کے منصوبے ہیں ۔
گوادر میں مقامی آبادی کی طرف سے سہولیات کی عدم فراہمی پر حال ہی میں ہونے والے احتجاج کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں خالد منصور کا کہنا تھا کہ بہت فوکس طریقے سے وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق ان مسائل کے حل کے لیے متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر سی پیک اتھارٹی کوشش کر رہی ہے۔ ان میں چاہے بجلی کے مسئلے ہوں یا وہ پانی کے مسئلے ہوں، وہ حل کیے جائیں گے۔ اس طرح وہاں کے نوجوان طبقے کی تربیت کے لیے ہم نے بہت ووکیشنل اور ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ حال ہی میں مکمل کیا ہے۔ وہاں نوجوان بچوں کو شامل کرکے تربیت دیں گے، پھر جو فری زون کے اندر صنعت لگ رہی ہے وہاں تربیت کر کے ان لوگوں کو ملازمت کے مواقع دیے جائیں گے۔

سی پیک سے 75 ہزار لوگوں کو روزگار مل چکا

سی پیک سے روزگار کے مواقع کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی نے بتایا کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 75 سے 80 ہزار لوگوں کو ملازمت کے مواقع مل چکے ہیں اور فیز ٹو میں تو مخلتف شعبوں میں لاکھوں افراد کو مزید اس طرح کے مواقع میسر آئیں گے۔
انہوں نے مثال دے کر وضاحت کی کہ جس وقت بجلی کے پراجیکٹ پر کام شروع ہوتا ہے تو پہلے تین سالوں میں ہزاروں لوگوں کو روزگار کے مواقع ملتے ہیں ان میں تربیت یافتہ لیبر بھی ہوتی ہے ، غیر تربیت یافتہ بھی  اور نیم تربیت یافتہ بھی ۔ اس کے بعد جس وقت پراجیکٹ ختم ہو جاتا ہے تو بے شمار لوگوں کو وہاں بھی روزگار ملتا ہے اور پھر جب انکی مہارت بڑھ جاتی ہے تو انکو پاکستان میں بھی زیادہ مواقع ملتے ہیں اور بیرون ملک بھی۔

سکیورٹی کے نئے نظام سے چین مطمئن

چینی ورکرز کی سکیورٹی کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سی پیک ہماری معیشت کے لیے گیم چینجر ہے۔ ہماری معیشت کو بحال کرنے کے لیے شہ رگ ہے، مگر بہت سی مخالف قوتوں کی نظر میں کھٹکتا بھی ہے۔ اسی  لیے اس کی سکیورٹی پر خصوصی توجہ دی گئی اور ابھی تک فیز ون میں جو پراجیکٹ محدود علاقوں میں تھے، ان میں ہزاروں چینی آئے اور ان کی سکیورٹی کی ذمہ داری پاکستان آرمی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بہت اچھے طریقے سے پوری کی اور ان کے اندر شاید ہی کوئی واقعہ ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ چین کی یہ شرط بھی تھی کہ جب وہ کام کریں گے تو ان کو فول پروف سیکورٹی دی جائے۔
تاہم جو اکا دکا واقعات ہوئے وہ ایسے پراجیکٹ تھے جو محدود علاقے میں نہیں تھے بلکہ کھلے علاقے میں تھے جیسے کہ داسو کا حملہ تھا، جس میں (ہلاکتیں ہوئیں)  اور پھر گوادر میں بھی ایک واقعہ ہوا تھا لیکن اللہ کا شکر ہے چینی شہریوں کی کوئی اموات نہیں ہوئیں۔ اس کے فوراً بعد اس قسم کے پراجیکٹس کے لیے بھی ازسرنو جائزہ لیا گیا اور ہماری سکیورٹی کو مزید مضبوط کیا گیا ۔ انفراسٹرکچر کے نکتہ نظر سے اور پھر نفری کی تعیناتی کے حوالے سے بھی پھر ایس او پیز کو بھی تبدیل کیا گیا کہ کیسے چینی ورکرز اور انجینئیرز کو لایا جائے گا جب وہ باہر کام کر رہے ہوں گے تو کسی سکیورٹی ہو گی۔

چین کی یہ شرط بھی تھی کہ جب وہ کام کریں گے تو ان کو فول پروف سیکورٹی دی جائے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان سارے انتظامات سے اور سکیورٹی میں اضافے کے بعد چین نے اس پر کافی اطمینان کا اظہار کیا۔ اور اس کے بعد داسو کے پراجیکٹ پر بھی دوبارہ کام شروع کر دیا اور گوادر میں جو ایکسپریس وے بن رہی تھی وہاں پر بھی دوبارہ سے کام شروع کر دیا ہے۔ ہماری پوری نظر ہے سکیورٹی پر اور باقاعدہ بنیادوں پر اس کی مانیٹرنگ بھی کی جاتی ہے اور (سی پیک کے ) فیز ٹو میں اپنے گزشتہ تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کام کریں گے۔
افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت آنے سے سی پیک پر اثرات کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر افغانستان میں استحکام آجاتا ہے تو اس کے اندر افغانستان کا بھی بھلا ہے اور سی پیک کا بھی کیونکہ اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ علاقائی رابطے حاصل کرنے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کہ کیونکہ گوادر پورٹ تقریباً آپریشنل ہو گئی ہے تو وہاں سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اب ہو رہی ہے اور اس کا ان کو فائدہ ہو رہا ہے۔

ریلوے کے منصوبے ایم۔ ایل ون پر پیش رفت


خالد منصور نے کہا کہ ان کا کہنا تھا کہ ریلوے کے بڑے منصوبے ایم۔ ایل ون پر بھی بات اگلے مرحلے پر پہنچ چکی ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

سی پیک اتھارٹی کے سربراہ نے تسلیم کیا کہ کورونا کی وجہ سے سی پیک کی رفتار میں تھوڑی سی کمی آئی تھی مگر اب دوبارہ سے رفتار بڑھی ہے اور ہم لوگ بہت پرعزم ہیں، چینی سفارت خانے کے ساتھ بہت اچھا رابطہ ہے اور اگر (کورونا کی وجہ سے) ابھی ہم وہاں نہیں جا سکتے تو ورچوئل طریقے سے ان کے ساتھ ہماری بات چیت شروع ہو گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریلوے کے بڑے منصوبے ایم۔ ایل ون پر بھی بہت زیادہ اگلے مرحلے پر بات چیت پہنچ چکی ہے۔ اس کے مالیاتی انتظام کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی ہے، اس کے علاوہ جن چینی کمپنیوں نے اس کی تعمیر میں حصہ لینا ہے، ان کی نیلامی کے حوالے سے بھی ہم بات کر رہے ہیں اور میری بڑی امید ہے کہ فیز ٹو کا یہ بہت اہم منصوبہ ہو گا اور تجارت کے اعتبار سے بھی سب سے موثر طریقہ ہو گا کہ ہماری ریل کے ذریعے رابطہ کاری ہو۔

شیئر: