’پنجاب کے ضلع گجرات کے نواحی گاؤں جسوکی کی مٹی میں وہ محبت چھپی ہے جو گھر سے دور بیرون ممالک میں بس جانے کے باوجود اب بھی دِلوں میں موجود ہے۔ ہم اپنی کوششوں کے ذریعے درحقیقت اپنی مٹی کا قرض اتار رہے ہیں۔‘
یہ الفاظ امریکہ میں مقیم چوہدری فیصل اعجاز سندھو کے ہیں۔
فیصل اعجاز اور چوہدری محمد شاہد سندھو کا دل آج بھی اپنے آبائی گاؤں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔
وہ سال میں ایک مرتبہ اپنے دو دیگر ساتھیوں کے ساتھ اپنے گاؤں کا رُخ کرتے ہیں اور سال بھر میں جمع ہونے والے اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے کے بعد اجتماعی شادیوں کا انتظام کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں
رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے عبدالرؤف بھی ان کے ساتھ امریکہ میں مقیم ہیں جب کہ ان کے ایک ساتھی وارث وڑائچ فرانس میں مقیم ہیں۔
ان چاروں دوستوں کی زندگی کا بیش تر حصہ بیرونِ ملک گزرا ہے لیکن ان کے خوابوں کا مرکز پاکستان ہی ہے۔
فیصل اعجاز امریکہ کی ریاست جارجیا میں گیس سٹیشنز اور پولٹری فارم چلاتے ہیں۔
محمد شاہد امریکہ میں موٹلز، فارمیسیز، ریئل سٹیٹ اور گروسری سٹورز کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
وارث وڑائچ فرانس میں کنسٹرکشن انڈسٹری میں اپنا مضبوط مقام بنا چکے ہیں جبکہ عبدالرؤف امریکہ میں اچھی خاصی کاروباری مصروفیات رکھتے ہیں۔
چاروں زندگی کے اس مقام پر ہیں جب کاروبار مستحکم اور آمدنی حوصلہ افزا ہے لیکن شاید وطن سے رشتہ ہی کچھ ایسا ہے کہ انسان جتنا بھی آگے نکل جائے وہ ایک بار اپنے گاؤں، اپنی زمین کی طرف ضرور واپس لوٹتا ہے۔
فیصل اعجاز سندھو نے اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’قریباً چار برس قبل تک ہم چاروں دوست ہر سال غریب اور مستحق افراد کو عمرہ کروا کر خوشی بانٹا کرتے تھے۔ گاؤں کے لوگ بھی ہم پر اعتماد کرتے تھے اور ضرورت مند ہر سال ہم سے مدد کے لیے رجوع کرتے تھے لیکن پھر مہنگائی کی لہر نے ہماری سوچ کا رُخ بدل دیا۔‘

ان کے مطابق ایک روز ان کے درمیان ہونے والی ایک عام سی گفتگو نے ایک بڑے فیصلے کو جنم دیا۔
چوہدری محمد شاہد سندھو اپنے اس فیصلے سے متعلق بتاتے ہیں کہ ’ہمیں احساس ہوا کہ ایسے سینکڑوں والدین ہیں جو اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے ساری زندگی محنت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی شادیاں نہیں ہو پاتیں۔ بیٹیوں کی عمریں بڑھتی رہتی ہیں اور شادی کے اخراجات کا بوجھ انہیں شادی کے بندھن میں بندھنے سے دور کرتا جاتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’یوں ہم نے طے کیا کہ عمرہ تو زندگی میں کبھی بھی ہو سکتا ہے لیکن کسی غریب کی بیٹی کو گھر بسانے میں مدد دینا شاید اس دنیا اور اگلی دنیا دونوں کی بھلائی کا سامان ہے اور یوں اجتماعی شادیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔‘
انہوں نے یہ فیصلہ کرنے کے بعد پہلے سال صرف سات شادیاں کروائیں جبکہ اگلے برس یہ تعداد 13 تک جا پہنچی۔
چوہدری فیصل اعجاز سندھو بتاتے ہیں کہ ’ہم نے تیسرے سال 30 جوڑوں کا گھر بسایا۔ ہم ہر سال جوڑوں میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں کیونکہ پہلے ہم صرف عمرہ کرواتے تھے اور اب شادیوں کی طرف آگئے تو یوں ہمارا تجربہ بھی بڑھتا گیا اور ہم ساری چیزیں اپنے بجٹ میں مینیج کر لیتے ہیں۔‘
’اب اس بار صرف ایک برس میں ہم نے 70 اجتماعی شادیاں کروائی ہیں۔ ان میں 48 گجرات کے گاؤں جسوکی میں اور 22 رحیم یار خان میں کروائی ہیں۔‘
یہ چاروں دوست اگلے سال 100 شادیاں کروانے کا ہدف رکھتے ہیں۔
جسوکی میں ان کی قائم کردہ تنظیم ’جسوکی ویلفیئر سوسائٹی‘ کا اس حوالے سے اہم کردار ہے۔
ہر سال 15 ستمبر تک مستحق خاندان اپنے کوائف جمع کرواتے ہیں۔ ان کوائف کے ساتھ گاؤں کے نمبردار اور امام مسجد کی تصدیق لازم ہوتی ہے۔ ٹیم خود بھی گھر گھر جا کر حالات کا جائزہ لیتی ہے۔ کئی مرتبہ ایسے خاندان بھی سامنے آتے ہیں جو سفید پوشی کے سبب زبان سے کچھ نہیں کہتے لیکن حالات انہیں کہیں زیادہ مستحق بنا دیتے ہیں۔ تمام معلومات کی تصدیق کے بعد حتمی فہرست ترتیب پاتی ہے۔

محمد شاہد سندھو بتاتے ہیں کہ ’شادی کے دن لڑکے اور لڑکی والے 25، 25 مہمان لا سکتے ہیں اور رشتہ طے کرنے کا عمل مکمل طور پر دونوں خاندانوں پر منحصر ہوتا ہے جبکہ تنظیم اس میں مداخلت نہیں کرتی۔ یوں ایک دن طے کر کے ہم ایک جوڑے کے 50 مہمانوں کے لیے ولیمے کا بندوبست کرتے ہیں۔‘
شادی کے دن کا بندوبست مکمل طور پر ان چاروں دوستوں کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ چندہ نہ امداد اور نہ ہی باہر سے ایک روپیہ، یہ سارا خرچ یہ دوست خود اٹھاتے ہیں۔
چوہدری شاہد سندھو بتاتے ہیں کہ ’ہم کسی سے چندہ وغیرہ نہیں لیتے۔ ہمارے کاروبار اچھے ہیں تو ہم اسی میں سے اپنا الگ بجٹ بناتے ہیں۔ شادی کے علاوہ ہر دلہن کو مکمل جہیز پیکیج بھی دیا جاتا ہے جس میں بیڈ روم اور ڈرائنگ روم کا فرنیچر، سلائی مشین، واشنگ مشین، پنکھے، برتن، ڈنر سیٹ، رضائیاں اور زندگی شروع کرنے کے لیے ضروری تمام اشیاء شامل ہوتی ہیں جبکہ رخصتی کے وقت نقد سلامی بھی دی جاتی ہے۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر شادی والے دن کوئی شخص کچھ عطیہ دینا چاہے تو وہ رقم شادیوں میں استعمال نہیں کی جاتی بلکہ گاؤں کی فلاح پر خرچ ہوتی ہے۔
چوہدری فیصل اعجاز سندھو بتاتے ہیں کہ ’جسوکی میں صفائی ستھرائی، عید پر راشن کی تقسیم، سیلاب یا وبا کے دنوں میں خوراک اور دیگر امدادی پروگرام پہلے سے جاری ہیں۔ ہمارے کئی منصوبے سالہا سال سے جاری ہیں۔ اگر کوئی کچھ دینا بھی چاہے تو وہ گاؤں کی مقامی کمیٹی گاؤں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی ہے۔‘
اس سال گجرات کے علاوہ رحیم یار خان میں پہلی مرتبہ اجتماعی شادیوں کا انعقاد ہوا۔ چاروں دوست جب بھی پاکستان آتے ہیں تو گاؤں کے لوگ انہیں اپنے بیٹوں کی طرح خوش آمدید کہتے ہیں۔
فیصل اعجاز، محمد شاہد، وارث وڑائچ اور عبدالرؤف کے مطابق یہ سلسلہ کسی نمود و نمائش کے لیے نہیں بلکہ صرف اس لیے ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں مستحق خاندانوں کی سفید پوشی کا بھرم قائم رہے۔
چوہدری فیصل اعجاز کا کہنا ہے کہ ’بیرون ملک رہ کر بھی دل کبھی گاؤں سے جدا نہیں ہوتا اور شاید یہی احساس انہیں ہر سال پاکستان کھینچ لاتا ہے۔‘












