Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

25 برس قبل بے نظیرکی دوسری حکومت کیسے ختم کی گئی؟

صحافی حامد میر نے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو ان کی حکومت کے ممکنہ خاتمے کے بارے میں آگاہ کیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
’ان کی حکومت کے خاتمے سے دو دن پہلے میں اور ڈان کے ایڈیٹر ضیاالدین بی بی سے وزیراعظم ہاؤس میں ملے۔ رات کافی ہوچکی تھی ضیاالدین صاحب نے بی بی سے کہا کہ اس لڑکے کے پاس ایک خبر ہے۔ بی بی نے مجھ سے پوچھا کیا خبر ہے؟ میں نے کہا کہ ’فاروق لغاری آپ کی حکومت ختم کرنے والے ہیں۔‘
میری بات سن کر بی بی بولیں کہ ’فاروق بھائی ایسا نہیں کر سکتے‘ تو میں نے کہا کہ وہ بظاہر کہتے ہیں کہ بلوچ کبھی اپنی بہن کے ساتھ دھوکہ نہیں کرسکتا لیکن وہ بلوچ اپنی بہن کے ساتھ دھوکہ کرنے کا فیصلہ کرچکا ہے۔ اگلی حکومت کے وزیراعظم کا بھی فیصلہ ہو چکا ہے۔‘
نومبر 1996 میں بے نظیر بھٹو کی دوسری مدت کی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے سینیئر صحافی حامد میر کا بیان کردہ واقعہ معروف صحافی سہیل وڑائچ کی بے نظیر بھٹو کے بارے میں کتاب ’قاتل کون؟‘ میں نقل کیا گیا ہے۔
نومبر کی پانچ تاریخ کو امریکہ میں صدارتی انتخابات کے لیے ووٹ ڈالے جارہے تھے ایسے میں علی الصبح بے نظیر بھٹو کی ایوان اقتدار سے رخصتی کی خبر نے ہلچل مچادی ۔صدر کی جانب سے اس تاریخ اور وقت کے انتخاب میں شاید یہ عنصر بھی کارفرما تھا کہ دنیا بھر کے جمہوری اور ابلاغی اداروں کی نظریں امریکی انتخابات کے نتائج پر لگی ہوئی تھیں۔
اس وقت پاکستان میں گذشتہ دو ماہ سے پہ در پہ پیش آنے والے واقعات سے سیاسی حالات کے نبض شناس تجزیہ کاروں کو کسی ڈرامائی تبدیلی کے آثار نمایاں ہوتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے مگر عوام کی غالب اکثریت کے لیے اسمبلیوں کی رخصتی کی خبر دھماکے سے کم نہ تھی۔
اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ چھ برس میں یہ تیسری حکومت تھی جو آئین کی دفعہ 58 ٹو بی کا نشانہ بنی تھی۔
اس فیصلے میں حیرت کا پہلو صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں اپنی پارٹی اور قائد کی حکومت کا خاتمہ تھا۔اس انہونی کے پس پردہ محرکات کا جائزہ لینے سے قبل ان حالات کو جاننا ضروری ہے جس میں بے نظیر بھٹو کا دوسرا دور حکومت شروع ہوا۔
چوٹی زیریں کے سابق بیوروکریٹ اور بے نظیر بھٹو کے قابل بھروسہ ’بھائی‘ فاروق  لغاری کو ایوان صدر میں پہنچانے کے لیے بے نظیر اپنے سیاسی مخالف غلام اسحاق خان کے گھر خود چل کر گئی تھیں۔

اپنی حکومت کے خاتمے کی خبروں پر بے نظیر بھٹو کا کہنا تھا کہ ’فاروق بھائی ایسا نہیں کر سکتے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سابق بیوروکریٹ روئیداد خان کی کتاب ‘پاکستان انقلاب کے دہانے پر ‘کے مطابق 1993 کے صدارتی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے وسیم سجاد کے علاوہ سابق صدر غلام اسحاق خان بھی آزادانہ حیثیت میں صدارتی امیدوار تھے۔وزارت خزانہ کے متمنی فاروق لغاری کو پیپلز پارٹی نے اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا۔
غلام اسحاق خان کی مقابلے میں موجودگی سے بے نظیر بھٹو کو فاروق لغاری کی پوزیشن وسیم سجاد کے مقابلے میں کمزور لگی تو وہ سابق صدر کے ہاں پہنچ گئیں۔ان کی مقابلے سے دستبرداری نے فاروق لغاری کو آسانی سے ایوان صدر کا مکین بنا دیا۔
ماضی  میں اسمبلیوں کی تحلیل کے صدارتی اختیار کی ڈسی بے نظیر نے اپنی حکومت پر ایوان صدر سے شب خون مارنے کا راستہ بند کرنے کی سعی کی۔
وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے لیے ماضی کی نسبت اس بار سیاسی حالات سازگار اور متوقع مخالفتوں کے امکانات کم تھے۔ ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف نواز شریف پنجاب میں حکومت بنانے سے محروم ہوچکے تھے۔ صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) میں معمولی اکثریت سے ان کی جماعت اتحادی حکومت بنا پائی۔

بے نظیر بھٹو کی حکومت چھ برس میں تیسری حکومت تھی جو آئین کی دفعہ 58 ٹو بی کا نشانہ بنی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

گذشتہ دو انتخابات میں پیپلزپارٹی کے مقابل رہنے والی آئی جے آئی کے بکھرنے سے بے نظیر بھٹو کو مضبوط اور متحرک اپوزیشن کا سامنا بھی نہ تھا۔سب سے بڑھ کر آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ کے ساتھ گذشتہ حکومت میں سر اٹھانے والے سیاسی بحران کے حل کے دوران اعتبار اور تعاون کا تعلق استوار ہو چکا تھا۔
ماضی میں طاقت کے دوسرے بڑے ستون عدلیہ سے شاکی رہنے والی بے نظیر بھٹو  کے لیے اقتدار کے پہلے سال ہی اپنی مرضی کا چیف جسٹس لگانے کے امکانات پیدا ہوگئے۔ 5 جون 1994 کو دو سینیئر ججز پر سجاد علی شاہ کو ترجیح دے کر چیف جسٹس بنا دیا گیا۔
معروف ماہر قانون حامد خان ایڈووکیٹ ’پاکستان کی آئینی و سیاسی تاریخ‘ کے نام سے اپنی کتاب میں سجاد علی شاہ کے تقرر کی دو وجوہات بیان کرتے ہیں۔ بے نظیر کی پہلی حکومت کے خاتمے کے کیس میں ان کا اکثریتی فیصلے سے اختلاف اور نواز شریف حکومت کی بحالی کے فیصلے کی مخالفت پر مبنی اختلافی نوٹ۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کا ایک سال بھی پورا نہ ہوا تھا کہ اپوزیشن لیڈر نواز شریف نے اس کے خلاف تحریک نجات کا آغاز کردیا۔ اس دوران پورے ملک میں حکومت مخالف ریلیاں اور کراچی سے پشاور تک ٹرین مارچ کیا گیا۔ اس قبل از وقت احتجاج کی وجہ صوبہ سرحد کے وزیر اعلٰی پیر صابر شاہ کی حکومت کا خاتمہ تھا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کا ایک سال بھی پورا نہ ہوا تھا کہ اپوزیشن لیڈر نواز شریف نے اس کے خلاف تحریک نجات کا آغاز کردیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

نئی حکومت نے چار ماہ بعد ہی صوبہ سرحد میں آرٹیکل 234 کے تحت گورنر راج لگا کر مسلم لیگ ن اور اے این پی کی مخلوط حکومت کو معطل کردیا۔ صوبائی اسمبلی میں ہنگامہ خیز واقعات اور ہارس ٹریڈنگ کے بدترین الزامات کی بوجھاڑ کے دوران آفتاب احمد خان شیرپاؤ پیپلز پارٹی کے وزیراعلٰی بن گئے۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی ایک برس بعد ایسی ہی صورت حال پیدا ہوگئی جہاں پیپلز پارٹی کی مسلم لیگ جونیجو کے ساتھ اتحادی حکومت قائم تھی۔ 1995 میں وزیراعلٰی منظور وٹو کے انتظامی اور سیاسی فیصلوں سے نالاں وفاقی حکومت نے یہاں بھی آرٹیکل 234 کے تحت صوبائی حکومت معطل کرکے گورنر راج نافذ کردیا۔
اس دوران جوڑ توڑ سے سردار عارف نکئی کو وزیراعلٰی بنایا گیا اور منظور وٹو نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ایک سال بعد عدالت نے ان کی حکومت بحال کردی۔ وفاق نے سپریم کورٹ میں اپیل کی مگر اسی دوران ہی قومی اسمبلی کی تحلیل کی وجہ سے صوبائی اسمبلی بھی کچھ دنوں میں توڑ دی گئی۔
اکتوبر 1995 میں اعلٰی فوجی قیادت اور حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں خلافت کا نظام قائم کرنے کے ایک منصوبے کا انکشاف ہوا۔ اس وقت کے وزیر دفاع آفتاب شعبان میرانی نے سینیٹ میں اس کی تفصیل بیان کی۔ان کے مطابق فوج میں افسروں کے ایک گروپ جس میں ایک میجر جنرل، ایک بریگیڈیئر، تین کرنل اور سات دیگر فوجی افسران شامل تھے نے بغاوت کا منصوبہ بنایا۔

وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف زرداری کا نام مرتضیٰ بھٹو کے قاتلوں کے سرپرست کے طور پر لیا گیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس منصوبے کے تحت انہوں نے پہلے آرمی کی اعلٰی قیادت اور کور کمانڈرز کو حراست میں لینا تھا۔پھر سویلین حکومت کا خاتمہ کرکے خلافت کے قیام کا اعلان کرنا منصوبے کا حصہ تھا۔فوج کی انٹیلی جنس نے اس منصوبے کا سراغ لگا کر تمام افراد کو گرفتار کرلیا۔بے نظیر بھٹو اپنے آپ بیتی ’بےنظیر بھٹو ڈاٹر آف دی ایسٹ‘ میں لکھتی ہیں کہ انہوں نے میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی کی تقریر کا مسودہ بھی پڑھا جو حکومت کے خاتمے کے بعد ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر نشر ہونا تھا جس میں سرحدوں کا خاتمہ کرکے خلافت قائم کرنے کی بات کی گئی تھی۔ان تمام افراد کو فوج سے برطرف کر کے کورٹ مارشل کے بعد مختلف سزائیں دی گئیں۔
صدر فاروق لغاری کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب سے ایک روز قبل اپوزیشن لیڈر میاں نواز شریف کے والد کو لاہور سے گرفتار کر کے اسلام آباد لایا گیا جہاں انہیں سیف ہاؤس میں رکھا گیا۔ دل کا دورہ پڑنے پر انہیں ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔
نواز شریف کابینہ کے سابق رکن سرتاج عزیز اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے انہیں فون کر کے میاں شریف کی رہائی کا بتایا۔ سرتاج عزیز لکھتے ہیں کہ اس واقعے کے پیچھے بے نظیر بھٹو کی حکومت کے لوگ تھے جو نواز شریف کو اس کے ذریعے مشتعل کر کے فاروق لغاری کی تقریر کے دوران ہنگامہ کروانا چاہتے تھے۔ان کے خیال میں یہ بے نظیر بھٹو اور صدر لغاری کے درمیان بداعتمادی کا نقطہ آغاز تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ منانے کے معاملے پر بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کے درمیان اختلافات سامنے آئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بے نظیر بھٹو نے دفاعی تجزیہ کار شجاع نواز کو دیے گئے انٹرویو میں صدر لغاری  سے اختلافات کی ایک اور وجہ بیان کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ فاروق لغاری کی دبئی میں ایک مذہبی خاتون  سے ملاقات ہوئی جس نے انہیں کہا کہ اس منصب کے لیے خدا نے انہیں منتخب کیا ہے بے نظیر بھٹو کی عزت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
اس دوران آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ کی 1995 کے اواخر میں ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل جہانگیر کرامت فوج کے نئے سربراہ بنے۔سہیل وڑائچ اپنی کتاب میں بے نظیر بھٹو سے اپنی ملاقاتوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس دوران بےنظیر بھٹو نے انہیں بتایا کہ جہانگیر کرامت پیشہ ور سپاہی تھے جن سے مجھے کوئی گلہ نہیں۔
انہوں نے اپنی ڈیوٹی کے مطابق مجھے بتایا کہ صدر فاروق لغاری مجھ سے خوش نہیں ہیں لیکن میں جب فاروق لغاری سے ملی انہوں نے اس بات کا احساس تک نہیں ہونے دیا۔اس حوالے سے شجاع نواز بے نظیر بھٹو کے ایک انٹرویو کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اگست 1996 میں جہانگیر کرامت نے انہیں مطلع کیا کہ حمید گل نے انہیں بتایا ہے کہ صدر چاہتے ہیں کہ وہ بے نظیر بھٹو سے چھٹکارا پالیں اور آپ بھی ان کا ساتھ دیں۔
صدر فاروق لغاری کے بدلتے تیور اور ارادے بے نظیر بھٹو کے لیے خوش کن نہ تھے۔ اسی دوران مارچ 1996 میں سپریم کورٹ کے ججز کیس کے فیصلے نے ان کی سیاسی اور انتظامی مشکلات بڑھا دیں۔اب ایوان صدر کے ساتھ ساتھ ایوان عدل کے سربراہ کے ساتھ بھی ان کی چپقلش کا آغاز ہوگیا تھا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک معراج خالد کی قیادت میں نگران حکومت قائم کی گئی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پیپلز پارٹی کی حکومت پر سب سے زیادہ تنقید عدلیہ میں کی گئی تقرریوں میں اقربا پروری اور میرٹ کی پامالی پر ہوئی۔سب سے پہلے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس ناصر اسلم زاہد کو انتقامی طور پر وفاقی شرعی عدالت بھیج دیا گیا۔ ساتھ ہی سندھ اور  لاہور ہائی کورٹ میں قائم مقام چیف جسٹس تعینات کر کے ججوں کی خالی اسامیوں پر اپنے من پسند لوگوں کو لگا دیا گیا۔
حامد خان ایڈووکیٹ کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں 20 ججز کی تعیناتی میں بمشکل 10 لوگ میرٹ پر پورا اترنے والے تھے۔ ان کے مطابق نوتعینات شدہ ججز میں ایک صاحب نے لاہور ہائی کورٹ میں پہلی مرتبہ اس وقت قدم رکھا جب وہ حلف اٹھانے آئے۔
مختلف عدالتوں میں ججز کی تعیناتی کو وہاب الخیری ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا جس کے نتیجے میں مشہور زمانہ ججز کیس کے فیصلے میں اہلیت پر پورا نہ اترنے والے بہت سارے افراد کو فارغ کردیا گیا۔
اس فیصلے نے بھی ایوان صدر  اور حکومت میں فاصلے بڑھا دیے۔اسی دوران فاروق لغاری نے سپریم کورٹ سے ریفرنس کے ذریعے رائے مانگی جس میں ججوں کی تقرری میں صدر کے اختیار کی وضاحت اور تشریح کا کہا گیا تھا۔
طاقت کے تمام مراکز کے ساتھ تعلقات میں کھچاؤ نے حکومت کو کمزور کردیا  مگر 20 ستمبر 1996 کو وزیراعظم کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل نے ایک طرف حکومت کو لرزا دیا تو دوسری طرف وزیراعظم اور ان کے خاندان کو ذاتی صدمے اور جذباتی جھٹکے سے بھی دوچار کردیا۔

بے نظیر بھٹو نے فاروق لغاری کو صدر منتخب کرانے کے لیے غلام اسحاق خان سے بھی مدد طلب کی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پچیس برس گزرنے کے بعد بھی میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل پر پراسراریت کی دھند چھائی ہوئی ہے۔اس بارے میں بہت سارے نظریے اور مفروضے منظر عام پر آئے مگر قطعیت کے ساتھ کسی پر بھی یقین کرنا مشکل ہے۔مگر ایک بات طے ہے کہ اس کے پیچھے جن عناصر کا ہاتھ تھا وہ بھٹو خاندان میں تقسیم اور بے نظیر کی حکومت سے رخصتی کی خواہش رکھتے تھے۔
ضیاالحق کے دور میں الذوالفقار کے ذریعے ان کی حکومت کے لیے اندرون و بیرون ملک مزاحمت کی علامت مرتضیٰ بھٹو نے 1993 میں طاقت کا راستہ ترک کر کے پاکستان واپسی اختیار کی۔ انہیں گرفتار کرکے لانڈھی جیل میں رکھا گیا تھا۔
سہیل وڑائچ بےنظیر بھٹو کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ مرتضیٰ کی وطن واپسی کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ سیاسی جانشینی بیٹی کو نہیں بیٹے کو ملنی چاہیے۔
بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں 5 جنوری 1994 کو ان کے آبائی گھر المرتضیٰ لاڑکانہ میں ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ کی تقریب میں ہونے والے ہنگامے نے ماں اور بیٹی کے درمیان خلیج مزید بڑھا دی۔بیگم نصرت بھٹو اپنے شوہر کی سالگرہ کی تقریب کے لیے المرتضیٰ سے جلوس کی شکل میں گڑھی خدا بخش جانا چاہتی تھیں جب کہ بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کی قبر کے قریب مشاعرے کا اہتمام کر رکھا تھا۔

فاطمہ بھٹو کے مطابق مرتضیٰ بھٹو کے قتل سے تین روز قبل ان کے گھر کے باہر اسلحہ بردار گاڑیاں نظر آنا شروع ہو گئیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہیں خفیہ اداروں سے رپورٹ ملی تھی کہ نصرت بھٹو کے جلوس کی وجہ سے امن و امان کا مسئلہ بن سکتا ہے جس پر مقامی انتظامیہ کو کہا گیا کہ پارٹی کارکنوں کو المرتضیٰ سے نہ نکلے دیا جائے، اس پر پولیس اور کارکنوں میں جھڑپوں اور لڑائی سے بے شمار افراد زخمی ہوگئے۔
اس واقعے نے مرتضیٰ بھٹو کے لیے کارکنوں میں ہمدردی کی لہر پیدا کردی جس کی بنیاد پر 1995 میں انہوں نے پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی بنیاد رکھ دی۔معروف تجزیہ کار اور صحافی مظہر عباس کے مطابق بے نظیر نے 1993 کے الیکشن میں اپنے بھائی اور ان کے قریبی ساتھیوں کو پارٹی ٹکٹ کی پیش کش کی تھی مگر مرتضیٰ بھٹو کے کچھ قریبی ساتھیوں نے انہیں اس پر آمادہ نہ ہونے دیا۔اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کے بیٹے کی سندھ میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کچھ خاص لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث بن رہی تھی۔
حامد میر کے مطابق وزیراعظم نے اپنے بھائی کو وزیراعظم ہاؤس بلا کر کہا کہ ان کے خلاف باہر سے سازشیں ہو رہی ہیں۔انہیں اپنی سکیورٹی کا بندوبست کرنا چاہیے۔ مرتضیٰ بھٹو نے اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ان کا خیال تھا کہ یہ سازشیں پیپلز پارٹی کے اندر سے ہو رہی ہیں جبکہ باہر  والے لوگوں پر الزام لگایا جا رہا ہے۔
بے نظیر بھٹو اپنی خودنوشت میں بیان کرتی ہیں کہ دونوں بہن بھائیوں کے درمیان برسوں کی ناراضی کے بعد معاملات ٹھیک ہوچکے تھے۔ ہمارا خاندان ایک بار پھر یکجا ہونے والا تھا مگر میری حکومت ختم کرنے کے لیے ایک سازش کے تحت مرتضیٰ کو مار دیا گیا۔

فاروق لغاری نے 5 نومبر 1996 کو وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کردی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سترہ ستمبر 1996 کو مرتضیٰ بھٹو پشاور کے دورے سے واپس آئے تو انھیں پتا چلا کہ ان کے قریبی ساتھی علی سنارا کو پولیس اٹھا کر لے گئی ہے۔ مرتضیٰ بھٹو کی صاحبزادی فاطمہ بھٹو اپنی کتاب ’سانگ آف بلڈ اینڈ سورڈ‘ میں اس واقعے کی تفصیل لکھتی ہیں۔
’مرتضیٰ بھٹو اپنے ساتھی کی تلاش میں پہلے سی آئی اے تھانہ گئے مگر وہ وہاں نہیں تھے۔اس کے بعد جب ایس ایس پی ساؤتھ کے آفس میں بھی ان کا سراغ نہ ملا تو اس پر طیش میں آکر ان کے والد نے ایک پولیس افسر کو کالر سے پکڑ کر کھڑا کیا۔ سندھ کے آئی جی سمیت دیگر پولیس افسران کو علی سنارا کے خلاف ثبوت پیش کرنے کا چیلنج بھی دیا۔‘ فاطمہ بھٹو کے مطابق اگلے تین دنوں میں ان کے گھر کے باہر اسلحہ بردار گاڑیاں نظر آنا شروع ہو گئیں۔
18  ستمبر کو میر مرتضیٰ بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر بے نظیر بھٹو نے انہیں پھول اور کیک کا تحفہ بھیجا۔ مرتضیٰ بھٹو کے پولیس کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی گونج قومی اخبارات اور اسمبلی تک پہنچ گئی۔ مظہر عباس کے مطابق بے نظیر بھٹو نے وزیر داخلہ نصیراللہ بابر کے ذریعے کراچی پولیس کے چیف شاہد حیات کو پیغام دیا کہ اگر مرتضیٰ کے محافظوں کو گرفتار کرنا ہو تو یہ کام اس کے بھائی کی شہر میں عدم موجودگی میں کیا جائے۔

بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر کے خلاف سرے محل کی ملکیت سے متعلق خبروں کا سلسلہ شروع ہوگیا (فائل فوٹو: کلارک گیمن ویلرز)

مرتضیٰ نے 20 ستمبر کو اپنے دفتر میں پریس کانفرنس میں کھل کر اپنے خلاف سازش کی بات کی۔ انہوں نےکراچی پولیس کے شعیب سڈل اور واجد درانی کا نام لے کر انہیں سازش کا ذمہ دار قرار دیا۔ اسی شام وہ اپنے محافظوں کے ساتھ جب 70 کلفٹن پہنچے تو گلی میں پولیس نے انہیں روک دیا۔ اسی دوران شدید فائرنگ شروع ہوگئی جس میں پولیس افسر شاہد حیات کو گولی لگ گئی۔ اس کے بعد سات منٹ تک اطراف سے فائرنگ ہوتی رہی جس سے میر مرتضیٰ بھٹو شدید زخمی ہوگئے۔ انہوں نے ہسپتال پہنچ کر دم توڑ دیا۔
سیاسی مشکلات میں گھری بے نظیر کے لیے بھائی کا قتل جذباتی طور پر دل دہلا دینے والا تھا۔ اس واقعے نے انہیں سیاسی اور انتظامی طور پر مزید کمزور کردیا۔ ان کے شوہر آصف علی زرداری کا نام قاتلوں کے سرپرست کے طور پر لیا جانے لگا۔ اس حوالے سے علی سنارا کی آصف زرداری سے مبینہ جھڑپ اور دیگر افسانہ نما کہانیاں اور خبریں اخبارات کی زینت بننا شروع ہوگئیں۔
مظہر عباس کے مطابق بے نظیر بھٹو نے اس واقعے کے بعد کابینہ کے ایک اجلاس میں وزیر داخلہ سے سخت باز پرس کی جنہوں نے جواب میں پولیس اور شعیب سڈل کا دفاع کیا۔
حکومت نے ناصر اسلم زاہد کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن قائم کیا جس کی رپورٹ کسی واضح کردار کا تعین نہیں کرتی، تاہم اس میں کہا گیا کہ پولیس کا اقدام محض آپس کا ٹکراؤ نہ تھا۔ مظہر عباس کے مطابق بے نظیر بھٹو نے انہیں بتایا کہ تفتیش کے دوران انہیں بھی حقائق کے بارے میں گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔

فروری 1997 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اپنی تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار ہوئی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک معراج خالد کی زیر قیادت 10 رکنی نگران کابینہ تشکیل دی گئی۔ 18 نومبر کو احتساب آرڈیننس کے ذریعے احتساب کمیشن قائم کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر کے خلاف سوئس اکاؤنٹس اور سرے محل کی ملکیت کے بارے میں مقامی اور بین الاقوامی اخبارات میں خبروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ فروری 1997 میں نئے انتخابات سے قبل ہی سپریم کورٹ نے صدارتی فرمان کو سند جوازعطا کردی۔ الیکشن میں پیپلز پارٹی اپنی تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار ہوئی جبکہ نواز شریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ برسر اقتدار آگئے۔

شیئر: