Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر میں پولیس چھاپوں میں ہلاکتیں: ’وہ بہت بے شرمی سے ہنس رہے تھے‘

خاندانوں کا کہنا ہے کہ مرنے والے افراد بیگناہ تھے۔ (تصویر: اے ایف پی)
پیر کی رات انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت میں پولیس نے ایک مبینہ چھاپے کے دوران چار افراد کو ہلاک کیا تھا اور حکام کا کہنا تھا کہ مارے جانے والوں کا تعلق عسکریت پسند گروہ سے تھا۔
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے انسپیکٹر جنرل آف پولیس وجے کمار نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ مرنے والے افراد میں سے دو لوگ الطاف احمد بھٹ اور ڈاکٹر مدثر گل دہشتگردوں کے سہولتکار تھے۔
انڈیا کے اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق آئی جی وجے کمار کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مدثر گل بطور کرایہ دار الطاف احمد بھٹ کے گھر میں رہ رہے تھے اور اسی گھر کا ایک کمرہ عسکریت پسندوں کے استعمال میں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی شخص عسکریت پسندوں کو ٹھکانہ فراہم کرتا ہے تو اسے پتہ ہونا چاہیے کہ اس کے متوقع نقصانات کیا ہوسکتے ہیں۔
تاہم ان دونوں افراد کے خاندانوں کا کہنا ہے کہ ان کا کسی عسکریت پسند سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
مقامی صحافی باسط زرگر نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو شیئر کی اور اس میں ڈاکٹر مدثر گل کے خاندان کی ایک خاتون کہہ رہی تھیں کہ ’مہربانی کرکے ہم کو ڈیڈ باڈی دیجیے۔ ہم کو یہ شوق نہیں ہے کہ ہم ٹی وی پر آئیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے ’بیگناہ لوگوں کو مارا۔‘
پولیس کی کارروائی میں ہلاک ہونے والے دوسرے شخص الطاف احمد بھٹ کی بیٹی نے اس چھاپے کے حوالے سے ایک ویڈیو میں کہا کہ انہوں نے چھاپہ مارنے والے افراد کو اپنے والد کے بیگناہ ہونے کے حوالے سے بتایا لیکن جواب میں وہ ہنستے رہے۔
’وہ بہت بے شرمی سے ہنس رہے تھے میں کیا جواب دیتی ان کو۔‘
الطاف احمد بھٹ کی بیٹی نے مزید کہا کہ ’میرا بھائی وہ سیکنڈ کلاس میں ہے، وہ بہت چھوٹا ہے اس کو ہم کیا کہیں گے؟‘

عینی شاہد کیا کہتے ہیں؟

انڈیا کے اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کو واقعہ کے ایک عینی شاہد نے بتایا کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس سیکیورٹی اہلکار پہلے الطاف احمد بھٹ کے گھر کے قریب آئے اور اردگرد موجود دکانداروں کو دکانیں بند کرنے کا کہا۔
عینی شاہد کے مطابق تقریباً 30 افراد کو بلڈنگ سے تھوڑا دور ایک موٹرسائیکل شوروم میں دھکیل دیا۔
’تقریباً ساڑھے پانچ بجے ہمارے موبائل فون لے لیے گئے جب محاصرہ کیا گیا اور انہیں رات ساڑھے بارہ بجے سے پہلے واپس نہیں کیا گیا۔‘
انڈین اخبار کی رپورٹ کے مطابق تین عینی شاہدین نے الطاف احمد بھٹ اور ڈاکٹر مدثر گل کو سیکیورٹی اہلکاروں کو بلڈنگ تک لے جاتے ہوئے دیکھا۔
’دوسری مرتبہ تقریباً 20 منٹ بعد ہم نے فائرنگ کی آواز سنی اور پھر وہ واپس نہیں آئے۔‘
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے اس واقعہ کی تحقیقات ہونی چاہییں۔
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی ایک اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ معصوم شہریوں کو ’ہیومن شیلڈ‘ کے طور استعمال کرنا اور انہیں کراس فائز میں مروا دینا ’انڈین رول بک‘ کا حصہ ہے۔
انہوں نے بھی اس واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

شیئر: