Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ میں جنسی ہراسیت کا الزام: ضیا چشتی کون ہیں؟

ٹاٹیانا کا کہنا ہے کہ ضیا چشتی نے برازیل کے دورے کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا۔ (فائل فوٹو: ایفینیٹی)
پاکستانی نژاد امریکی کاروباری شخصیت ضیا چشتی پر ان کے ساتھ کام کرنے والی ساتھی نے جنسی طور پر ہراساں کرنے اور تشدد جیسے سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔
ضیا چشتی آئی ٹی انڈسٹری سے منسلک ہیں اور کمپنی ’افینیٹی‘ کے فاؤنڈر اور سی ای او ہیں۔ انہیں اپنے شعبے میں نمایاں کارکردگی دکھانے پر 2016 میں اس وقت کی پاکستانی حکومت نے ستارہ امتیاز سے نوازا تھا۔
ماضی میں ان کے ساتھ کام کرنے والی خاتون ٹاٹیانا سپوٹس ووڈ 16 نومبر کو امریکی کانگریس کی ہاؤس جوڈیشری کمیٹی کے سامنے حاضر ہوئی تھیں۔
اپنے بیان میں ٹاٹیانا نے دعویٰ کیا کہ جب وہ 12 یا 13 سال کی تھیں تو ضیا چشتی ان کے والد کے بزنس ایسوسی ایٹ اور دوست تھے اور جن بھی وہ ان کے علاقے میں موجود ہوتے تھے، ان کی فیملی کو کھانے پر لے جایا کرتے تھے۔
’جب میں دسمبر 2014 میں کالج میں اپنے سینئر ائیر میں تھی، ضیا چشتی جو اس وقت تک 43 سال کے تھے انہوں نے مجھے سکی ٹرپ پر آنے کی دعوت دی۔ میں اس وقت 21 سال کی تھی۔‘
ٹاٹیانا نے کانگریس کی کمیٹی کو بتایا کہ ’میں نے شروع میں منع کر دیا لیکن ان کا اصرار تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ میں ان کے بھتیجے سے ملوں جو فلسفہ پڑھتا ہے تو میں نے رضامندی کا اظہار کردیا۔‘
ٹاٹیانا کا کہنا ہے کہ انہیں بعد میں پتہ چلا کہ ان کا بھتیجا ان سے ملنے نہیں آیا تھا، اس کا وجود ہی نہیں ہے۔
’ضیا چشتی نے مجھے بتایا کے وہ میرے لیے احساسات رکھتے ہیں اور مجھے ایک پرتعیش زندگی دکھائی لیکن میں نے انہیں اس وقت ریجیکٹ کر دیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ضیا چشتی کے اصرار پر 9 ماہ بعد انہوں نے ان سے تعلق رکھنے کی ہامی بھر لی اور آنے والے 10 ہفتوں میں پانچ بار ان دونوں نے ساتھ وقت گزارا اور پھر انہوں نے ضیا چشتی سے تعلق ختم کر لیا۔
’کچھ ماہ بعد چشتی نے میری حوصلہ افزائی کی کہ میں ان کی کمپنی جوائن کر لوں۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ انہوں نے ضیا چشتی پر بھروسہ کر لیا اور ’چشتی نے مجھے یقین دہانی کرائی کہ وہ مجھ سے جنسی تعلقات کی امید نہیں رکھتے۔‘
ٹاٹیانا کا کہنا ہے کہ انہوں نے ’افینیٹی‘ 2016 میں جوائن کی اور وہ خوش تھیں کہ انہیں سالانہ 60 ہزار ڈالر تنخواہ ملے گی۔
’لیکن بعد میں پتہ چلا کہ چشتی مجھے ایک ملازم کے طور پر ٹریٹ نہیں کرنا چاہتے تھے، اس کے بجائے انہوں نے اگلے 18 ماہ تک مجھ پر جنسی تعلقات رکھنے کے لیے دباؤ ڈالا اور مجھے سزا دیتے رہے۔‘
ان کا دعویٰ ہے کہ جب انہوں نے ضیا چشتی کی حوصلہ شکنی کرنا چاہی تو انہوں نے ساتھی ملازمین کے سامنے ان کی بے عزتی کی اور پھر مجھے مکمل طور پر نظرانداز کر دیا جس کے بعد انہیں نوکری کھو دینے کا ڈر رہا۔
ٹاٹیانا نے دبئی کے ایک دورے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ضیا چشتی نے انہیں دیگر ساتھیوں کے سامنے ہراساں کیا لیکن کسی نے بھی ان کے خلاف کارروائی نہیں کی۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ضیا چشتی نے ایک اور خاتون ملازم کو ہراساں کیا لیکن ’افینیٹی‘ نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ انہیں ’سیکرٹ فنڈ‘ سے پیسے دے دیے۔
برازیل کے ایک بزنس ٹرپ کا ذکر کرتے ہوئے ٹاٹیایا نے دعویٰ کیا کہ ضیا چشتی نے ان پر جنسی تشدد کیا۔
’انہوں نے مجھے کہا کہ انہیں میرے ساتھ جنسی رشتہ استوار کرنا چاہیے تھا اس وقت جب ہم پہلی بار ملے، جب میں 13 سال کی تھی۔‘
ٹاٹیانا نے کانگریس کو تصاویر بھی دیں جس میں ان کے چہرے اور گردن پر تشدد کے نشانات دیکھے جا سکتے ہیں۔
ضیا چشتی کی کمپنی ’افینیٹی‘ نے ایک بیان میں ٹاٹیانا کے الزامات کی تردید کی ہے اور انہیں غلط قرار دیا ہے۔
کمپنی سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم اس قسم الزامات کو بہت سنجیدگی سے دیکھتے ہیں۔‘
بیان میں کمپنی کا دعویٰ ہے کہ افینیٹی نے ان الزامات کی آزادانہ تحقیقات کی اور اس نتیجے پر پہنچی کے یہ الزامات غلط ہیں۔
ضیا چشتی کون ہیں؟
ضیا چشتی کی ’لنکڈ اِن‘ پروفائل کے مطابق وہ تاحال ’افینیٹی‘ چیئرمین اور سی ای او ہیں اور وہ ’دا ریسورس گروپ‘ (ٹی آر جی) کے پچھلے 19 سال سے چیئرمین بھی ہیں۔
ٹی آر جی کے ایک شاخ پاکستان میں بھی موجود ہے جسے ’ٹی آر جی پاکستان‘ کہا جاتا ہے اور ضیا چشتی اس کے سینیئر پارٹنر ہیں۔ کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق یہ کمپنی پاکستان میں بطور ’پبلک لمیٹڈ کمپنی‘ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ ہے۔
ان کی کمپنی ’افینیٹی‘ کو ’اپلائیڈ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کمپنی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ضیا چشتی اس سے قبل مشہور امریکی کمپنیوں ’مارگن سٹیلنے‘ اور ’میکینزی‘ میں بھی کام کر چکے ہیں۔
ٹی آر جی کی ویب سائٹ کے مطابق ضیا شاہد کولمبیا یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں اور ایم بی اے انہوں نے سٹینفورڈ بزنس سکول سے کیا ہے۔
ضیا شاہد کا تعلق لاہور سے ہے۔ 2017 میں پاکستانی اخبار ’ایکسپریس ٹریبیون‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ان کے ہزار سے زائد ملازمین میں سے 700 سے زیادہ کا تعلق لاہور سے ہے۔
انہیں آئی ٹی کے شعبے میں نمایاں خدمات دکھانے پر پاکستانی حکومت نے 2018 میں ستارہ امتیاز دیا تھا۔
سوشل میڈیا پر نشانہ امتیاز واپس لینے کا مطالبہ
ٹاٹیانا کے امریکی کانگریس کمیٹی کے سامنے بیان کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین ان سے نشان امتیاز واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پاکستانی صحافی عنبر رحیم شمسی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ان سے ستارہ امتیاز واپس لینا چاہیے۔
ماہم ناصر نامی صارف نے کہا کہ ضیا چشتی نشان امتیاز رکھتے ہیں اور اب اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
کچھ صارفین ضیا چشتی کی تصاویر شیئر کر رہے ہیں جن میں وہ پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کے ساتھ دیکھے جا سکتے ہیں۔
ان میں سے کچھ تصاویر اس وقت کی ہیں جب فروری 2020 میں ضیا چشتی دیگر کاروباری شخصیات کے ساتھ پاکستان آئے تھے اور انہوں نے وزیراعظم عمران خان اور ان کے قریبی ساتھی زلفی بخاری سے ملاقاتیں کی تھی۔
کچھ تصاویر میں انہیں خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ محمود خان اور دیگر صوبائی وزرا کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔
واضح رہے ضیا چشتی نے رواں برس پشاور میں ’ٹیکنالوجی سٹی‘ بنانے میں دلچسپی ظاہر کی تھی اور اسی سلسلے میں ان کی ملاقاتیں خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ اور دیگر وزرا کے ساتھ بھی ہوئیں تھیں۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان میں آئی ٹی شعبے میں 50 ہزار سے زائد نوکریاں پیدا کی جانی تھیں۔

شیئر: