Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ میں عبوری داخلے کے لیے 28 ہزار افغانوں کی درخواستیں، صرف 100 منظور

کابل سے انخلا کے دوران اتحادی افواج نے ہزاروں افغان شہریوں کو ملک سے نکالا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
اتحادی افواج کے کابل سے انخلا کے دوران 28 ہزار افغان باشندوں نے انسانی بنیادوں پر امریکہ میں عبوری داخلے یا پناہ حاصل کرنے کی درخواستیں دیں جن میں سے صرف 100 کو منظور کیا گیا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق امریکی سٹیزن شپ اور امیگریشن سروسز کے حکام اس دوران بڑی تعداد میں درخواستوں کو پراسیس کرنے میں مشکلات کا شکار دکھائی دیتے ہیں تاہم پُرعزم ہیں کہ محکمے کا سٹاف بڑھتے کیسز پر جواب دے گا۔
امریکی میں رہائش پذیر افغان خاندان اور تارکین وطن کو سپورٹ کرنے والے گروپ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے سست روی افغانستان میں انتظار کرتے اُن کے پیاروں کی زندگی کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
امریکی شہر مساچوسٹس کی رہائشی صافی کہتی ہیں کہ ’کسی دن مجھے فون آئے گا اور بتایا جائے گا کہ افغانستان میں ہمارے کوئی رشتہ دار زندہ نہیں رہے۔‘
صافی کے خاندان نے افغانستان میں رہنے والے اپنے 21 رشتہ داروں کو امریکی لانے کے لیے سپانسر کیا ہے اور امریکہ کے انسانی ہمدردی کے پروگرام کے تحت درخواستیں جمع کرائی ہیں۔
امریکہ میں مستقل رہائش رکھنے والی 38 سالہ افغان خاتون صافی نے کہا کہ ان کا پورا نام نہ لکھا جائے کیونکہ اس سے افغانستان میں ان کے رشتہ داروں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
صافی کو اُمید ہے کہ وہ اپنی بہن، چچا اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو امریکہ لانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔
انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں ان کے رشتہ دار طالبان کے آنے کے بعد چھپ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے چچا اشرف غنی حکومت میں ایک جانے پہچانے مقامی افسر تھے۔
مساچوسٹس میں پناہ گزینوں کی معاونت کرنے والی ایجنسی کی اٹارنی چیارا سینٹ پیئر نے اے پی کو بتایا کہ درخواستوں پر منظوری کے عمل کی سست روی سے ایسے خاندان پریشانی کا شکار ہیں جنہوں نے اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ڈالرز کی پراسیسنگ فیس جمع کرائی ہے۔

حکام کے مطابق جن 100 درخواستوں کی منظوری دی گئی ہے ان میں سے بعض افراد تاحال افغانستان میں ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

چیارا پیئر اور ان جیسی دیگر وکلا نے شکایت کی کہ امریکی پیرول پروگرام کے تحت ہر درخواست کے ساتھ 575 ڈالرز جمع کرانے کی فیس ہے، اس طرح دیکھا جائے تو محکمہ صرف افغانوں سے گزشتہ چند ماہ میں ساڑھے گیارہ ملین ڈالر کی رقم لے کر بیٹھا ہوا ہے۔
چیارا پیئر جن کی تنظیم نے 50 سے زائد افغان شہریوں کے پیرول کی درخواستیں جمع کرا رکھی ہیں، نے کہا کہ ’لوگ افغانستان سے اپنے خاندان والوں کو باہر نکالنے کے لیے بے تاب ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کیا یہ ہمارا فرض نہیں ہے کہ ان لوگوں کے لیے کام کریں جو پیچھے رہ گئے ہیں، خاص طور پر جب وہ ہمارے امیگریشن قوانین کے مطابق دیے گئے آپشنز کو استعمال کر رہے ہیں۔‘
امیگریشن درخواستوں کو پراسیس کرنے والی امریکی ایجنسی کی ترجمان وکٹوریا پالمر نے کہا کہ محکمے نے مزید 44 اہلکاروں کو ٹریننگ دی ہے تاکہ بڑھتی درخواستوں کے مسئلے کو حل کیا جا سکے۔
ترجمان نے کہا کہ جن 100 درخواستوں کی منظوری دی گئی ہے ان میں سے بعض افراد تاحال افغانستان میں ہیں جبکہ کچھ لوگ دیگر ممالک پہنچ گئے ہیں۔ تاہم انہوں نے اس کی تفصیل بتانے سے انکار کیا۔
وکٹوریا پالمر کے مطابق امریکی امیگریشن کے اس پیرول پروگرام کے تحت عام طور پر سالانہ دو ہزار سے کم درخواستیں موصول ہوتی ہیں جن میں سے اوسطا 500 کی منظوری دی جاتی ہے۔

شیئر: