Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشترکہ اجلاس کے بعد: ماریہ میمن کا کالم

ن لیگی رہنماؤں کو یقین ہے کہ نواز شریف بازی پلٹ سکتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
تحریک انصاف کی حکومت نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے تین درجن کے لگ بھگ قوانین پاس کرا لیے اور اپوزیشن رسمی سے احتجاج سے زیادہ کچھ نہیں کر سکی۔
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن باوجود اپنے خاطر خواہ نمبروں کے حکومت کی حکمت عملی کے سامنے توقع کے عین مطابق منہ دیکھتی رہ گئی۔
 پچھلے کالم میں بھی ذکر ہوا تھا کہ اپوزیشن کی تمام حکمت عملی حکومت کے اندر تفرقات پر منحصر ہے۔
جب حکومتی کیمپ سے کوئی اختلافی خبر آتی ہے تو اپوزیشن کے چہروں پر روشنی آ جاتی ہے۔ جب حکومت اپنے اختلاف پر قابو پا لیتی ہے تو اپوزیشن اگلے کسی اور تفرقے کی امید لگا کر محو انتظار ہو جاتی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ اپوزیشن میں تجربہ کار اور منجھے سیاسی رہنماؤں پر مشتمل پرانی سیاسی پارٹیاں موجود ہیں اس کے باوجود سب کا ایک جگہ اور ایک نکتے پر اکٹھا ہونا ایک خبر ہوتا ہے۔ 
مشترکہ اجلاس کے بعد سینیٹ کے اجلاس میں وہ ایک بار پھر اپنی مقررہ تعداد اکٹھی نہیں کر سکے اور حکومت وہاں سے بھی نیب سمیت دیگر قوانین منظور کرانے میں کامیاب ہو گئی۔ اپوزیشن میں تجربہ کاری کی تو کمی نہیں اس کے بعد دو ہی توجہیات بچتی ہیں۔
ایک مایوسی اور دوسرا اختلاف۔ ایک صورت یہ ہے کہ لیڈرشپ میں جاری کنفیوژن کی وجہ سے اراکین میں عدم دلچسپی اور مایوسی ہے اور دوسرا یہ کہ سیاسی طور پر مختلف پارٹیوں کی حکمت عملی ہر نئے ایشو کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے۔

سیاسی پارٹیوں کی حکمت عملی ہر نئے ایشو کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

آصف زرداری اور شہباز شریف اپوزیشن تو کرنا چاہتے ہیں مگر ناپ تول کے۔ اس کی سب سے بڑی مثال سینیٹ میں چیئرمین کا انتخاب ہے۔ ان دو میں سے وجہ جو بھی ہو، نتیجہ یہی ہے کہ حکومت کو ریلیف ملتے  چلے جا رہے ہیں۔
حکومت کو ملنے والے ریلیف بھی ان کے لیے دیرپا اعتماد لانے میں کچھ خاص کامیاب نظر نہیں آتے۔ ایک تو حکومت کی عددی اکثریت ق لیگ، ایم کیو ایم، باپ اور قبائلی سینیٹرز کے گروپ کی مرہون منت ہے۔ ووٹ دینے کے باوجود ان میں سے کسی پارٹی نے حکومت کے لیے اپنے تحفظات میں کمی کا اشارہ نہیں کیا۔
اس لیے واضح ہے کہ اگلے کسی بھی اہم موڑ پر حکومت ان چھوٹی پارٹیوں کے اعتماد کا دعوٰی نہیں کر سکتی۔ ہر دفعہ اسی طرح اندرونی و بیرونی سہاروں پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔ اس لیے قوانین کا پاس ہونا حکومت کی عددی مضبوطی کا شاید تعین نہ کر سکے۔ 
ایوان میں اکثریت کے ساتھ ساتھ رائے عامہ کی بھی اپنی اہمیت ہے۔ بڑھتی ہوئی قیمتوں، گورننس کی کمزوریاں اور عمومی عدم استحکام سے رائے عامہ حکومت کے لیے نا ہموار ہی کہی جا سکتی ہے۔
مقامی حکومتوں کے انتخابات کو آگے سے آگے لے جانے کی ایک وجہ عدم مقبولیت اور عدم استحکام ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آنے والے دنوں میں معاشی اور سیاسی میدان میں حکومت کے لیے اچھی خبریں ہوں گی؟ حکومتی کے جانثار اراکین بھی شاید اس سوال کا جواب اثبات میں نہ دے سکیں۔

مقامی حکومتوں کے انتخابات کو آگے سے آگے لے جانے کی ایک وجہ حکومت کی عدم مقبولیت اور عدم استحکام ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

ہمارا موجودہ سیاسی ڈھانچہ، مشکلات سے دو چار حکومت اور ایک کمزور اپوزیشن سے عبارت ہے۔ اس لیے اس میں بہتری بھی نہیں آ رہی اور تبدیلی بھی نہیں دیکھی جا رہی۔ کبھی ایک فریق کچھ پوائنٹ سکور کرتا ہے تو کبھی دوسرا فریق پھر کم بیک کر لیتا ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ سیاسی میدان میں اگلے انتخابات سے پہلے کوئی تلاطم آئے گا یا نہیں؟
دارالحکومت میں ہونے والی چہ مہ گوئیوں کے مطابق اب اس کا انحصار پاکستان سے زیادہ لندن میں مقیم نواز شریف کی اگلی ’موو‘ پر ہے۔

دارالحکومت کی چہ مہ گوئیوں کے مطابق سیاست میں طلاطم کا انحصار لندن میں مقیم نواز شریف کی اگلی ’موو‘ پر ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

حسب روایت انہوں نے کارڈ اپنے سینے سے لگا کر رکھے ہیں جس کی وجہ سے ان کی اپنی جماعت ایک غیر یقینی اور تذبذب کی کیفیت سے دو چار ہے۔
ن لیگ کے سینیئر ترین رہنما بھی اس بارے میں لا علم نظر آتے ہیں مگر اس لاعلمی کے باوجود ان کو یقین ہے کہ نواز شریف کی پٹاری میں ایسے پتے ضرور ہیں جن سے بازی پلٹ سکتی ہے۔ کب اور کیسے یہ پتے سامنے آئیں گے، کب کا جواب تو اب کچھ مہنیوں تک آ گیا ہے، اور کیسے کے لیے بھی وہ اشارہ لندن ہی کی طرف کرتے ہیں۔
اب گویا سیاست میں بریک تھرو کا مرکز بیرون ملک ہے بصورت دیگر اس طرح ہلکی پھلکی موسیقی چلتی رہے گی۔

شیئر: