Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فوج کے تمام رولز اور قوانین کا آئین کے تحت جائزہ لیں گے: سپریم کورٹ

چیف جسٹس نے کہا کہ فوج ریاست کی زمین پر کمرشل سرگرمیاں کیسے کر سکتی ہے؟ (فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ میں کنٹونمنٹ اراضی پر کمرشل سرگرمیوں کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ فوج جن قوانین کا سہارا لے کر کمرشل سرگرمی کرتی ہیں وہ غیرآئینی ہیں۔ 
انھوں نے کہا کہ ’کراچی میں تمام غیر قانونی عمارتیں مسمار کروا رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو چھوڑ دیں۔‘
منگل کو سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو سیکریٹری دفاع نے عدالت میں دفاعی مقاصد کے لیے حاصل کی گئی زمینوں پر تجارتی سرگرمیوں بارے رپورٹ پیش کی۔
سپریم کورٹ نے سیکریٹری دفاع کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی۔ اٹارنی جنرل نے استدعا کی تو عدالت نے رپورٹ واپس لینے کی اجازت دے دی۔ 
چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ ’کیا سنیما، شادی ہال، سکول اور گھر بنانا دفاعی مقاصد ہیں؟ کراچی میں تمام غیر قانونی عمارتیں مسمار کروا رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو چھوڑ دیں۔ فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو چھوڑ دیا تو باقی کو کیسے گرائیں گے؟ اٹارنی جنرل صاحب فوج کو قانون کون سمجھائے گا؟‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’فوج کے ساتھ قانونی معاونت نہیں ہوتی وہ جو چاہتے ہیں کرتے رہتے ہیں۔ فوج جن قوانین کا سہارا لے کر کمرشل سرگرمی کرتی ہیں وہ غیرآئینی ہیں۔ کارساز میں سروس روڈ بھی بڑی بڑی دیواریں تعمیر کرکے اندر کر دی گئیں۔ کنٹونمنٹ زمین کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔‘
چیف جسٹس نے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’پرل مارکی اور گرینڈ کنونشن ہال ابھی تک برقرار ہیں۔ کالا پُل کے ساتھ والی دیوار اور گرینڈ کنونشن ہال آج ہی گرائیں۔ کارساز اور راشد منہاس روڈ پر اشتہارات کے لیے بڑی بڑی دیواریں تعمیر کر دی ہیں۔ فیصل بیس پر سکول، شادی ہال بھی بنے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی شادی کا مہمان بن کر رن وے پر بھاگ رہا ہوگا۔ کہا جا رہا ہے کہ مسرور اور کورنگی ایئر بیسز بند کیے جا رہے ہیں۔ ایئر بیس بند کرکے وہاں کمرشل سرگرمی شروع کریں گے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ کوئٹہ اور لاہور میں بھی دفاعی زمین پر شاپنگ مالز بنے ہوئے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ’کنٹونمنٹ زمین دفاعی مقاصد پورا ہونے پر حکومت کو واپس کرنا ہوتی ہے۔ حکومت زمین انہیں واپس کرے گی جن سے ایکوائر کی گئی ہوں۔‘ 
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ’فوج کو معمولی کاروبار کے لیے اپنے بڑے مقاصد پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ فوج کو اپنے ادارے کے تقدس کا خیال رکھنا چاہیے۔ سمجھ نہیں آتا فوج کو کاروباری سرگرمیاں کرنے کی ضرورت کیا ہے؟‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’کوئٹہ اور لاہور میں بھی دفاعی زمین پر شاپنگ مالز بنے ہوئے ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ وزارت دفاع کیسے ان سرگرمیوں کو برقرار رکھے گی۔‘ 
سیکریٹری دفاع نے بتایا کہ ’قانون کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کے لیے تینوں افواج کی مشترکہ کمیٹی بنا دی ہے۔‘ 
چیف جسٹس نے کہا کہ ’فوج ریاست کی زمین پر کمرشل سرگرمیاں کیسے کر سکتی ہے؟ ریاست کی زمین کا استحصال نہیں کیا جا سکتا۔ صرف کراچی کا مسئلہ نہیں پورے ملک کا یہی حال ہے۔ سنیما، شادی ہال اور گھر بنانا اگر دفاعی سرگرمی ہے تو پھر دفاع کیا ہوگا؟‘ 
چیف جسٹس نے کہا کہ ’فوج کے تمام رولز اور قوانین کا آئین کے تحت جائزہ لیں گے۔ فوج ملک کے دفاع کے لیے ہے نہ کہ کاروبار کرنے کے لیے۔‘ 
عدالت نے سیکریٹری دفاع سے چار ہفتے میں عمل درآمد رپورٹ طلب کر لی ہے۔

شیئر: