Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سابق افغان سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت، امریکہ اور یورپ کو تشویش

15 اگست کو افغان طالبان نے کابل کا کنٹرول حاصل کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ اور یورپ سمیت دیگر ممالک نے طالبان کے ہاتھوں افغان سکیورٹی فورسز کے سابق اہلکاروں کی مبینہ ہلاکتوں اور جبری گمشدگیوں کی مذمت کرتے ہوئے فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اتوار کو امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ، آسٹریلیا، جاپان اور دیگر ممالک نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ’ہمیں ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کی رپورٹس پر تشویش ہے۔‘
 یہ بیان امریکی محکمہ خارجہ نے جاری کیا جس میں ماورائے عدالت قتل اور جبرہ گمشدگیوں پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ’مبینہ کارروایاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں اور یہ طالبان کی جانب سے عام معافی کے اعلان کے برعکس ہے۔‘
ان ممالک نے افغانستان کے نئے حکمرانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ ’عام معافی کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے اور شفاف طریقے سے رپورٹ ہوئے کیسز کی تحقیقات ہونی چاہییں۔ ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ طالبان کو ان کے اقدامات کی بنیاد پر پرکھا جائے گا۔
رواں ہفتے کے اوائل میں ہیومن رائٹس واچ کی ایک نئی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ طالبان نے افغان سکیورٹی فورسز کے سو سے زیادہ سابق اہلکاروں کو ہلاک اور جبری طور پر لاپتہ کیا ہے جبکہ سابق سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے خاندانوں کو بھی نشانہ بنایا۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا تھا کہ عام معافی کے اعلان کے باوجود سابق سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔
طالبان نے اگست میں افغانستان کا کنٹرول حاصل کیا اور امریکی حمایت یافتہ حکومت اور ملک کی فوج پسپا ہوگئی تھی۔
رواں ہفتے واشنگٹن نے طالبان حکام کے ساتھ مذاکرات کیے تھے۔ مذاکرات میں امریکہ نے طالبان پر زور دیا تھا کہ خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم تک رسائی دی جائے۔
امریکہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔

شیئر: