Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’افسران آپ سے ملے لیکن آپ نے کسی چیف جسٹس کو اطلاع نہیں دی‘ 

شوکت صدیقی نے کہا ’23 سال بطور وکیل، 7 سال بطور جج اور 3 سال بطور سائل ہو گئے ہیں۔ میں اس نظام کو بہت اچھے سے سمجھتا ہوں۔‘ (فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ)
سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف دائر پٹیشن کی سماعت کے دوران عدالت نے سوال اٹھایا ہے کہ سکیورٹی افسران کی جانب سے ایک جج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی تو اس پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیوں نہیں کیا گیا؟
پیر کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
جسٹس شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان نے اپنے دلائل میں موقف اپنایا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس صدیقی کے لگائے گئے الزامات کی خفیہ تحقیقات کرائیں اور ان کے مؤکل کو ان تحقیقات میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ 
انہوں نے کہا کہ ’جب جسٹس صدیقی کہتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو فلاں صاحب ان سے آ کر ملے تو اس بات کی تصدیق کے لیے ضروری ہے کہ اس کی کھلی تحقیقات ہوں اور ان سے کراس سوال کیے جائیں۔ کوئی تیسرا اس ملاقات کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کر سکتا۔‘
اس پر بینچ کے رکن جسٹس سردار طارق مسعود نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ آپ کی طرف سے تسلیم شدہ حقائق ہیں کہ آپ سے افسران ملے؟ جب حکام آپ سے ملے تو آپ نے ان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیوں نہیں کیا؟ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی، توہین عدالت کا نوٹس بنتا تھا۔ آپ نے کسی چیف جسٹس کو اطلاع بھی نہیں دی۔‘ 
انھوں نے کہا کہ ’آپ کو ایک سوال نامہ دیا گیا ہے جس میں چھ سوالات ہیں۔ آپ ان کے جوابات دے دیں تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ آپ کا مس کنڈکٹ نہیں تھا۔‘ 
اس دوران برطرف جسٹس شوکت صدیقی نے روسٹرم پر آ کر بات کرنے کی کوشش کی تو بینچ نے انہیں بات کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ آپ کے وکیل بات کر رہے ہیں، اس لیے آپ خاموش رہیں۔ 
وکیل حامد خان نے کہا کہ نوٹس جاری کرنا شوکت عزیز صدیقی کا کام نہیں تھا۔ ہم نے چیف جسٹس سے کہا تھا کہ متعلقہ افسران کو نوٹس جاری کر دیں تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس پر سپریم کورٹ کو توہین عدالت کا نوٹس دینا چاہیے تھا کہ ایک جج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 
اس دوران حامد خان کے پاس کھڑے جسٹس صدیقی نے 'سر کیا میں اس لیے نکال دیا جاؤں گا کہ میں نے ایک جرنیل کو نوٹس جاری نہیں کیا؟ یہ کہہ کر جسٹس شوکت صدیقی اپنی نشست پر واپس بیٹھ گئے۔ 
جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ 28 جون 2018 کو جرنیل آپ سے ملے، آپ نے 31 جولائی کو چیف جسٹس کو خط لکھا۔ایک ماہ تک انتظار کیوں کیا؟ 
جسٹس سردار طارق مسعود کے ان سوالات کے بعد شوکت عزیز صدیقی دوبارہ کھڑے ہو گئے۔اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے حامد خان پر برہمی اظہار کیا اور کہا ’حامد خان صاحب آپ نے دانستہ خاموشی اختیار کی ہے۔ جب آپ کے موکل نے اس عدالت کی تضحیک کی تو آپ خاموش رہے۔ جس طرح آپ کے موکل پھٹ پڑے یہ ہر لحاظ سے غیر معیاری ہے۔ آپ نے خاموش رہ کر شوکت عزیز صدیقی کی حوصلہ افزائی کی۔‘ 
وکیل حامد خان نے کہا کہ ’معذرت کرتا ہوں، جذبات میں آ جاتے ہیں۔‘
’آپ اپنے موکل کو اجازت دیتے رہے کہ وہ عدالت کی تضحیک کرتے رہیں۔ آپ اپنے موکل کو سمجھائیں کہ جب ان کے وکیل موجود ہیں تو وہ بات نہ کریں۔‘

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ریمارکس دیکھ کر اندازہ ہوگا کہ جج آزاد تھے یا پہلے سے ذہن بنایا ہوا تھا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ ادارے سمجھتے تھے کہ شوکت صدیقی آزاد جج ہیں۔ فیض آباد دھرنا کیس میں ریمارکس پر بھی جوڈیشل کونسل نے شوکاز بھیجا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ریمارکس دیکھ کر اندازہ ہوگا کہ جج آزاد تھے یا پہلے سے ذہن بنایا ہوا تھا۔ 
جسٹس سردار طارق نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس بار میں تقریر سے پہلے ہوا تھا۔ برطرفی تقریر پر ہوئی، دونوں کا آپس میں تعلق نہیں بنتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ شوکت عزیز صدیقی نے کیا ریمارکس دیے تھے؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی نے فیض آباد دھرنا کیس میں ریمارکس دیے۔ ججز سماعت کے دوران آبزرویشن دیتے رہتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا شوکت صدیقی نے خود سے منسوب ریمارکس کی تردید کی تھی؟ 
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ تقریر اور ریمارکس تسلیم شدہ ہیں جن پر کونسل نے فیصلہ کیا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے یہ نہیں کہا کہ آپ نے تقریر میں سب باتیں غلط کی ہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے یہ کہا کہ تقریر کرنا غلط تھا۔ شوکت عزیز صدیقی کا موقف ہے کہ بطور جج آپ کا حق ہے جو مرضی کہیں۔ آپ کا موقف یہ ہے کہ ایک جج کو اپنے جذبات کا اظہار کرنا ہو تو وہ اپنے اعتماد کے وکلا کے پاس جا سکتا ہے۔ 
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ ہمیں بتا رہے ہیں کہ شوکت عزیز صدیقی پر اس وقت نفسیاتی دباؤ تھا۔ ججز کے بارے میں منفرد بات یہ ہے جج کے اندر آگ بھی لگی ہو تو وہ خود کو پرسکون رکھتے ہیں۔ ججز پر بہت سے الزامات لگتے رہتے ہیں، جج اپنے فیصلے سے بولتا ہے۔ 
کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کر دی گئی۔

شیئر: