Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اپوزیشن اتحاد احتجاجی تحریک سے حکومت کو صرف تنگ کر سکتا ہے ختم نہیں‘

مجیب الرحمان شامی کا کہنا ہے کہ موجودہ معاشی حالات میں احتجاج کرنے والی اپوزیشن ایک بڑا اجتماع کرے گی (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کی جانب سے اگلے سال 23 مارچ کو اسلام آباد کی جانب احتجاجی مارچ کرنے کے اعلان کے بعد سیاسی مبصرین کی رائے میں تحریک انصاف کی حکومت کو بظاہر کوئی بڑا خطرہ لاحق نظر نہیں آتا۔
پیر کو اسلام آباد میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے اجلاس کے بعد اپوزیشن اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف اگلے سال مارچ میں اسلام آباد کی طرف ’ مہنگائی مارچ‘ کا اعلان کیا۔
سیاسی تجزیہ کار اور مبصرین کہتے ہیں کہ اپوزیشن اتحاد تحریک تو چلا سکتی ہے اور وقتی طور حکومت کو تنگ بھی کرے گی مگر کسی احتجاج کے نتیجے میں موجودہ تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا۔
پاکستان کے سیاسی حالات پر دہائیوں سے نظر رکھنے والے سینیئر تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی نے اس حوالے سے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن حکومت کو پریشان کرنے کی اپنی کوشش تو کر رہی ہے اور 23 مارچ کو احتجاج کے اعلان پر حکومت کے حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل سے یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
لوہا اچھا گرم ہے۔  لوگوں میں بے زاری ہے، معاشی صورتحال بھی سنبھلنے میں نہیں آ رہی۔ ضمنی بجٹ بھی آنے والا ہے، ان سب چیزوں نے اپوزیشن کے احتجاج کے لیے ماحول پیدا کر دیا ہے۔‘
سینیئر صحافی اور اینکر پرسن اویس توحید نے پی ڈی ایم کے احتجاج سے حکومت کو درپیش مشکلات کے سوال پر اردو نیوز کو بتایا کہ اپوزیشن اتحاد کا قیام جس زور شور سے ہوا تھا اب وہ کافی کمزور اور کنفیوژن کا شکار نظر آتا ہے۔

مجیب الرحمان شامی کے مطابق موجودہ معاشی حالات میں احتجاج کرنے والی اپوزیشن ایک بڑا اجتماع کرے گی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کے اتحاد سے نکلنے کے بعد اب پی ڈی ایم حکومت کو تنگ تو کر سکتی ہے مگر یہ حکومت گرانے والا اتحاد نہیں رہا۔
مجیب الرحمان شامی کے مطابق ’موجودہ معاشی حالات میں احتجاج کرنے والی اپوزیشن ایک بڑا اجتماع کرے گی۔ یہ تو نہیں کہہ سکتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں حکومت چلی جائے گی مگر لڑکھڑاتی ضرور نظر آئے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ویسے بھی احتجاجی تحریکوں کے نتیجے میں حکومتوں کو گرانا آسان نہیں۔ ’ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بڑی تحریک چلی مگر حکومت کو ختم فوج نے کیا۔‘ 
اویس توحید کہتے ہیں کہ ’پی ڈی ایم کے لیے عوام کو ساتھ ملا کر انقلابی تحریک چلانا ممکن نہیں جس سے حکومت کو بڑا خطرہ ہو۔ اپوزیشن اتحاد کا مقصد بظاہر اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان حکومت میں دراڑ ڈالنا تھا۔‘
ان کے مطابق ’ن لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ کہیں موجودہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر سنہ 2028 تک بندوبست نہ کر لے اس لیے پی ڈی ایم تشکیل دیا گیا۔‘

اویس توحید کا کہنا تھا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں الگے عام انتخابات کے لیے تیاری کر رہی ہیں نہ کہ حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے۔‘ (فوٹو: ٹوئٹر)

مجیب الرحمان شامی کا خیال ہے کہ اپوزیشن کتنا بھی بڑا ڈیڈلاک کیوں نہ پیدا کر دے حکومت کو گھر جانے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ صرف وزیراعظم ہی چاہیں تو اسمبلیاں توڑ سکتے ہیں۔‘
یہ کہنا تو بہت مشکل ہے کہ اپوزیشن اپنی تحریک سے حکومت کو رخصت کر دے گی مگر یہ ضرور ہے کہ ناک میں دم کرنے کی پوزیشن میں ہے۔‘
اویس توحید کا کہنا تھا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں الگے عام انتخابات کے لیے تیاری کر رہی ہیں نہ کہ حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے۔‘
انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ حکمران جماعت بھی دھند میں سیاسی کمندیں اچھال رہی ہے۔ ’پیپلز پارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف بھی دھند میں سفر کر رہی ہے اور دھند کافی گہری ہے۔ کوئی چیز یقینی نہیں۔ اور اگلا سال ریٹائرمنٹ اور نئی تقرریوں کا سال ہے۔‘

شیئر: