Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین ڈیفنس چیف کی ہلاکت، ’ہیلی کاپٹر دُھند میں نچلی پرواز کر رہا تھا‘

عینی شاہدین نے کہا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے سے قبل انڈیا کے ڈیفنس چیف جنرل بپن راوت کا ہیلی کاپٹر غیر معمولی طور پر نچلی پرواز کر رہا ہے جبکہ علاقے میں گہری دھند چھائی ہوئی تھی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جنوبی انڈیا میں حادثے کے مقام کونور کے علاقے میں موجود ایک کنسٹرکشن ورکر جیاسیلن نے بتایا کہ وہ اس وقت گھر پر تھے جب انہوں نے قریب سے آتی ہیلی کاپٹر کی آواز سنی اور جب دھماکے کی آواز آئی تو وہ باہر بھاگے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنگل میں دھواں اٹھتے دیکھا اور لکڑیوں کے ٹوٹنے کی آواز سنائی دی۔ ’ہیلی کاپٹر میرے بھائی کے گھر کے قریب گرا تھا۔‘
انڈیا کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ ہیلی کاپٹر نے بدھ کی دوپہر سولور ایئر بیس سے اڑان بھری تھی۔
انہوں ںے کہا کہ اڑان بھرنے کے 20 منٹ بعد ہیلی کاپٹر کا رابطہ بیس سے منقطع ہوا۔ ہیلی کاپٹر نے کچھ دیر بعد تامل ناڈو کی چھاؤنی ولنگٹن میں لینڈ کرنا تھا۔
جیاسیلن اور ستیش کمار نے روئٹرز کو بتایا کہ فوجی ہیلی کاپٹر عموما اسی علاقے سے پرواز کرتے گزرتے رہتے ہیں مگر اس ہیلی کاپٹر کی آواز کچھ زیادہ تھی کیونکہ دھند میں نچلی پرواز کر رہا تھا۔
ہیلی کاپٹر میں جنرل بپن راوت ان کی اہلیہ اور درجن بھر فوجی اہلکار تھے۔ حادثے میں ایئرفورس کے کیپٹن شدید زخمی ہوئے اور اس وقت ڈاکٹرز اُن کی جان بچانے کی کوشش میں ہیں۔
ہیلی کاپٹر گرنے کے فوری بعد جیاسیلن اور دو دیگر مقامی باشندے جائے حادثہ پر پہنچے۔ انہوں نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر آگ میں گھرا ہوا تھا اس لیے ان کو مشکل پیش آئی۔
مقامی باشندے ستیش کمار نے بتایا کہ کچھ دیر بعد ہی ایمرجنسی سروسز کے اہلکار بھی وہاں پہنچ گئے مگر پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے آگ بجھانے اور ریسکیو کے دیگر آلات اوپر لانے میں مشکلات تھیں۔
’ابتدا میں جن چار افراد کو حادثے کی جگہ سے نکالا گیا ان میں سے ایک زندہ تھا اور درد سے کراہ رہا تھا۔‘
جیاسیلن نے بتایا کہ ریسکیو ورکرز اور محکمہ دفاع کے اہلکاروں نے مقامی باشندوں کی جانب سے فراہم کی  گئی چادروں میں حادثے کے زخمیوں کو لپیٹ کر نکالا۔
ان کا کہنا تھا کہ حادثے کے شکار کچھ افراد بری طرح جل چکے تھے۔
حادثے کے ایک گھنٹے کے اندر ایئرفورس نے انکوائری کا حکم دے دیا تھا۔ جیاسیلن کا کہنا تھا کہ علاقے میں پولیس اہلکار اور محکمہ دفاع سے وابستہ حکام بڑی تعداد میں پہنچے۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس اہلکار ان سے پوچھ رہے تھے کہ علاقے میں کسی مشتبہ شخص کو تو نہیں دیکھا یا جنگل میں کوئی ایسا شخص جس کے پاس بندوق ہو۔
’ہم نے ان کو بتایا کہ کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا۔‘

شیئر: