Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا چین بیجنگ اولمپکس سے قبل اومی کرون پر قابو پا سکے گا؟

تیانجن میں کھانے پینے کی اشیا اور طبی سامان لانے والے ٹرکوں کو داخلے کی اجازت ہے۔ (فائل فوٹو: ایسوسی ایٹڈ پریس)
چین نے جمعرات کو بیجنگ سے متصل ایک شہر تک لوگوں کی رسائی بند کر دی ہے کیونکہ حکومت اگلے مہینے دارالحکومت میں ہونے والے سرمائی اولمپکس سے قبل کورونا وائرس کے تیزی سے منتقل ہونے والے اومی کرون ویریئنٹ کے پھیلاؤ پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق تیانجن، جو ایک بندرگاہ اور مینوفیکچرنگ سینٹر ہے اور جس کی آبادی ایک کروڑ 40 لاکھ ہے، ان نصف درجن شہروں میں سے ایک ہے جہاں حکومت وبا کی وجہ سے لاک ڈاؤن اور دوسری پابندیاں لگا رہی ہے۔
گیمز کی کامیابی چین کے قومی وقار سے منسلک ہے اس لیے بیجنگ نے اپنی ’قطعی طور پر ناقابل قبول‘ پالیسی مزید سخت کر دی ہے جس کی وجہ سے مغرب میں دو کروڑ سے زیادہ افراد ژیان اور دیگر شہروں میں لاک ڈاؤن میں رہ رہے ہیں۔
کچھ افراد کے تو اپنے گھروں سے بھی نکلنے پر پابندی ہے۔
جمعرات کو تیانجن سے دوسرے شہروں کے لیے ٹرین، ٹیکسی، بس اور دوسرے ذرائع آمدورفت کو بند کر دیا گیا۔
اس سے قبل فلائٹس اور ہائی سپیڈ ٹرین سروسز کو پہلے ہی معطل کر دیا گیا تھا جبکہ ہائی ویز بھی بند ہیں۔
شہر سے باہر جانے والے لوگوں کے لیے منفی وائرس ٹیسٹ دکھانا اور خصوصی اجازت نامہ حاصل کرنا ضروری ہے۔
شہری انتظامیہ کے نوٹس کے مطابق کھانے پینے کی اشیا اور طبی سامان لانے والے ٹرکوں کو داخلے کی اجازت ہے لیکن ڈرائیوروں کو ماسک پہننے اور وائرس کی منتقلی سے بچنے کے لیے دیگر اقدامات کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔

چین میں عام افراد کو ٹریک کرنے کے لیے ڈیجیٹل نگرانی کی جاتی ہے۔ (فوٹو: ایسوسی ایٹڈ پریس)

گاڑیاں بنانے والی مشہور جرمن کمپنی ووکس ویگن اے جی نے ایک بیان میں کہا کہ اس نے پیر کو تیانجن میں اپنی دو فیکٹریوں کو بند کر دی ہیں اور ملازموں کے دو بار ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔
کمپنی نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے ’ہمیں امید ہے کہ پیداوار جلد ہی دوبارہ شروع ہو جائے گی۔‘
شہر میں گذشتہ روز دوسری بار لوگوں کے وسیع پیمانے پر ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔ حکومت نے شہریوں کو کہا ہے کہ جب تک ان کے ٹیسٹوں کے نتائج منفی نہیں آجاتے وہ گھروں میں رہیں۔
تیانجن کے بیجنگ کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے صورتحال کافی پریشان کن ہو گئی ہے۔ گذشتہ سال جولائی میں ٹوکیو اولمپکس کے دوران جاپان میں بڑے پیمانے پر ڈیلٹا ویریئنٹ کے کیسز سامنے آئے تھے۔
اس سب کے باوجود تیانجن میں لوگوں کے لیے رکاوٹیں نسبتاً کم ہیں۔

کھیلوں کے آغاز سے قبل اولمپکس کا معاون عملہ چار فروری کو پہنچ رہا ہے۔ (فوٹو: ایسوسی ایٹڈ پریس)

تیانجن یونیورسٹی میں کام کرنے والے ایک شخص نے بتایا کہ ’سب کچھ ٹھیک ہے۔ آپ سپر مارکیٹ اور ریستوران میں آرام سے جا سکتے ہیں۔‘ چین نے 2020 کے آغاز سے نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔
حکومت نے زیادہ تر غیر ملکی مسافروں کے چین آنے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے اور عام افراد کو ٹریک کرنے کے لیے ڈیجیٹل نگرانی کی جاتی ہے۔
ان اقدامات نے وائرس کو ملک گیر وبا بننے سے روکا ہوا ہے۔ ملک میں ویکسینیشن کی شرح اب 85 فیصد سے اوپر ہے۔
چین کے لیے صورتحال کافی نازک ہے کیونکہ چار فروری کو کھیلوں کے آغاز سے قبل اولمپکس کا معاون عملہ پہنچ رہا ہے۔
شکاگو یونیورسٹی میں چینی سیاست کے ماہر ڈالی یانگ کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں یہ چین کے لیے واقعی ایک اہم موڑ ہے۔ کیا وہ اومی کرون کو روک سکتا ہے؟‘

تیانجن میں میں گذشتہ روز دوسری بار لوگوں کے وسیع پیمانے پر ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔ (فوٹو: ایسوسی ایٹڈ پریس)

ٹوکیو فاونڈیشن کے ماہر کینجی شبوآیا کا کہنا ہے کہ ٹوکیو اولمپکس کے مقابلے میں چین میں اولمپکس کے لیے زیادہ سخت اقدامات کیے گئے ہیں۔
اولپمکس مقابلے ایک ’کلوزڈ لوپ‘ نظام کے تحت منعقد کیے جا رہے ہیں جس کا مطلب ہے کھلاڑیوں، صحافیوں، سٹاف اور دیگر حکام کا باہر دنیا سے رابطہ کٹ جائے گا۔
لوگ سپیشل گاڑیوں میں سفر کریں گے اور اگر کوئی اس دائرہ کار سے باہر گیا تو اسے تین ہفتوں تک قرنطینہ میں رہنا ہوگا۔
یونیورسٹی آف ٹوکیو میں وبائی امراض کے ماہر کی سائتو کے مطابق ’اومی کرون ڈیلٹا کے مقابلے میں تین چار گنا زیارہ پھیلتا ہے۔ میرے خیال میں اسے پھیلنے سے روکنا ناممکن ہے۔‘
تاہم منتظمین پرعزم ہیں کہ امریکہ کے بائیکاٹ اور عالمی وبا کے باوجود اولمپکس ضرور ہوں گے۔

چین میں ویکسینیشن کی شرح اب 85 فیصد سے اوپر ہے۔ (فوٹو: ایسوسی ایٹڈ پریس)

صدر شی جن پنگ نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ ’دنیا چین کی طرف دیکھ رہی ہے اور چین تیار ہے۔‘
چین میں جمعرات کو کورونا وائرس کے 124 کیسز سامنے آئے ہیں۔ حکام کے مطابق وبا کے آغاز سے اب تک مجموعی کیسز کی تعداد ایک لاکھ چار ہزار 379 ہے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 4636 ہے۔
تاہم خیال رہے کہ یہ اعداد و شمار کئی مہینوں سے تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔

شیئر: