Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا نواز شریف کو واپس لانے کے لیے خط و کتابت ضروری ہے؟

نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس کو جانچنے کے لیے بورڈ تشکیل دیا گیا۔ فوٹو اے ایف پی
حکمران جماعت تحریک انصاف سابق وزیراعظم نواز شریف کو لندن سے واپس لانے کے لیے پوری طرح متحرک نظر آرہی ہے۔
ایک طرف تو نواز شریف کی صحت سے متعلق لندن سے آنے والی رپورٹس جانچ پڑتال کے لیے ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دے رکھا ہے تو دوسری طرف اٹارنی جنرل آفس نے نواز شریف کی ضمانت دینے والے ان کے بھائی اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو ایک خط لکھا ہے کہ اپنے بھائی کو واپس لانے والے اس حلف نامے پر عمل کریں جو انہوں نے عدالت کے روبرو جمع کروا رکھا ہے۔ 
اٹارنی جنرل آفس کی جانب سے لکھے جانے والے خط میں کہا گیا ہے کہ ’نواز شریف کی سیاسی، سماجی اور تفریحی سرگرمیاں جو میڈیا کی زینت بنی رہتی ہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اب بالکل ٹھیک ہیں، لہٰذا آپ اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے اب انہیں واپس لائیں۔‘ 
اس حکومتی خط کے بعد قانونی حلقوں میں ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے کہ اگر واقعی حکومت نواز شریف کو واپس لانا چاہتی ہے تو کیا یہی طریقہ کار ہے جو اپنایا جا رہا ہے یا پھر حکومت اس معاملے کو میڈیا اور عوامی منظر نامے پر ہی ڈیل کرنا چاہتی ہے؟ 
شہباز شریف اور نواز شریف کی جانب سے عدالت میں جمع کروائے گئے دو الگ الگ حلف ناموں کا جائزہ لیا جائے تو ان کی عبارت تقریباً ایک جیسی ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب شہباز شریف کے حلف نامے کے مطابق ’میں محمد شہباز شریف اس بات کا حلف دیتا ہوں کہ میں اپنے بھائی محمد نواز شریف کی واپسی کو یقینی بناؤں گا۔ چار ہفتوں کے اندر یا جب ڈاکٹر اس کی اجازت دیں۔‘ 
اس حلف نامے میں یہ عبارت بھی شامل ہے کہ ’اگر وفاقی حکومت کے پاس مصدقہ معلومات ہیں کہ محمد نواز شریف سفر کے قابل ہونے کے باوجود پاکستان واپس نہیں آرہے تو پاکستان ہائی کمیشن کا نمائندہ ان کے ڈاکٹر سے مل کر ان کی صحت سے متعلق تصدیق کر سکتا ہے۔‘

شہباز شریف نے نواز شریف کی واپسی کو یقینی بنانے کا حلف دیا تھا۔ فوٹو اے ایف پی

اسی طرح نواز شریف کے حلف نامے میں یہ کہا گیا ہے کہ ’میں ماضی کی طرح ملک واپس آکر مقدمات کا سامنا کروں گا۔ چار ہفتوں کے اندر یا جب ڈاکٹر اجازت دیں میں اپنے بھائی محمد شہباز شریف کے حلف نامے پر عمل کرنے کا پابند ہوں۔‘ 
خیال رہے کہ یہ دونوں حلف نامے 16 نومبر 2019 کو پچاس، پچاس روپے کے سٹامپ پیپرز پر لاہور ہائی کورٹ میں جمع کروائے گئے تھے۔  جس دن حلف نامہ جمع کروایا گیا اسی دن باہر جانے کی اجازت ملی اور 20 نومبر کو نواز شریف بیرون ملک روانہ ہو گئے تھے اور تاحال لندن میں مقیم ہیں۔
اسی حلف نامے پر عمل درآمد کروانے کے لیے اٹارنی جنرل نے شہباز شریف کو خط لکھا ہے تاہم قانونی ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سرگرمی غیر ضروری ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکریٹری آفتاب باجوہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک عدالتی معاملے کو اٹارنی جنرل نے ذاتی معاملے میں تبدیل کر دیا ہے۔
’اگر حکومت واقعی نواز شریف کو لانے میں سنجیدہ ہے تو سیدھی سیدھی ایک ضمنی درخواست اسی عدالت میں داخل کی جانی چاہیے جس نے نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دی تھی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کو خدشہ ہو سکتا ہے کہ اس سے معاملہ لٹکا رہے گا۔ کیونکہ لامحالہ عدالت شہباز شریف کو نوٹس کرے گی پھر نواز شریف کی رپورٹس آئیں گی اور اس حلف نامے میں  ایک شق کے مطابق ڈاکٹروں کی اجازت ہونا بھی ضروری ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’حکومت کو کسی جلد ریلیف کی توقع نہیں ہے اس لیے شاید وہ چاہتے ہیں کہ کم از کم اپنا سیاسی بیانیہ تو جاری رکھیں۔‘ 

اٹارنی جنرل آفس نے شہباز شریف کو حلف نامے پر عمل درآمد کا کہا ہے۔ (فوٹو :اے ایف پی)

بیرسٹر احمد پنسوٹا البتہ سمجھتے ہیں کہ اٹارنی جنرل کے خط کے پیچھے ایک منطق ہو سکتی ہے کہ شہباز شریف اس خط کا جو بھی جواب دیں گے اس کی بنیاد پر لاہور ہائی کورٹ میں ضمنی درخواست دینا اور بھی واضع ہو جائے گا۔
’میرے خیال میں حکومت عدالت میں شہبازشریف کے خلاف جھوٹا حلف نامہ جمع کروانے کا مقدمہ چلانا چاہتی ہے اور اس کے لیے وہ اپنے کیس کو بہتر سے بہتر کرنے کوشش کر رہے ہیں۔ یہ خط بھی اس سلسلے کی کڑی ہے۔‘
آفتاب باجوہ سمجھتے ہیں کہ یہ مقدمہ جھوٹے حلف نامے کا نہیں بنے گا کیونکہ اس وقت عدالت نے خود میڈیکل بورڈز کی رپورٹس پر فیصلہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ عدالت اگر دوبارہ میڈیکل رپورٹس پر مطمئن دکھائی نہیں دے گی تو وہ براہ راست شہباز شریف کو نواز شریف کو لانے کا حکم دیا جائے گا۔ جب تک حکومت اپنی حکمت عملی میں واضع نہیں ہوتی تب تک یہ معاملہ ایسا ہی رہے گا۔‘

شیئر: