Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بچیوں کو سکول جاتا دیکھنا چاہتے ہیں‘ افغانستان کی مدد انسانی حقوق سے مشروط

طالبان کے وفد سے ناروے میں مختلف ممالک کے سفارت کاروں نے ملاقات کی (فوٹو: اے پی)
مغربی سفارت کاروں نے افغانستان کو انسانی بنیادوں پر ملنے والی امداد کو انسانی حقوق کی بہتری کے ساتھ مشروط کر دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق رواں ہفتے اوسلو میں ہونے والے مذاکرات کے دوران مغربی سفارتکاروں نے طالبان کے وفد کے سامنے اپنی چند توقعات رکھی ہیں۔
افغانستان کے لیے یورپی یونین کے نمائندہ خصوصی ٹامس نکلسن نے ٹوئٹر پر لکھا کہ انہوں نے ملک بھر کے لڑکوں اور لڑکیوں کی پرائمری اور سیکنڈری سکولوں تک رسائی پر زور دیا ہے۔
خیال رہے کہ طالبان کا وفد ان دنوں یورپ کے اہم دورے پر ہے جس کے ساتھ مغربی ممالک کے سفارت کاروں نے منگل کو ملاقات کی۔
یورپی یونین کے نمائندہ خصوصی ٹامس نکلسن نے ٹویٹ کی کہ ’میں نے مارچ میں شروع ہونے والے تعلیمی سال پر ملک بھر کے لڑکوں اور لڑکیوں کی پرائمری اور سیکنڈری سکولوں تک رسائی پر زور دیا ہے۔‘
یہ ٹویٹ انہوں نے افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان کی اس ٹویٹ کے جواب میں کی جس میں ترجمان نے یورپی یونین کی جانب سے افغانستان کو انسانی امداد کے وعدے کو سراہا تھا۔  
مذاکرات سے متعلق نیویارک میں اقوام متحدہ میں ناروے کے وزیر اعظم جونس گاہر سٹور نے کہا کہ بات چیت ’سنجیدہ‘ اور ’حقیقی‘ تھی۔
ان کے مطابق ’ہم نے واضح کر دیا کہ ہم بچیوں کو مارچ میں دوبارہ سکولوں میں دیکھنا چاہتے ہیں، وہ بھی جو 12 سال سے بڑی ہیں، ہم انسانی ہمدردی کی بنیاد پر یہ رسائی دیکھنا چاہتے ہیں۔‘
اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد طالبان کے وفد کے یورپ کے پہلے دورے کے آخری روز سخت گیر موقف رکھنے والوں نے کئی مغربی سفارت کاروں سے بند دروازوں کے پیچھے مذاکرات کیے۔
طالبان بین الاقوامی طور پر اپنی حکومت کو تسلیم کروانا اور ملک کے مالی امداد چاہتے ہیں۔
طالبان کی جانب سے اسی ہفتے اوسلو میں ہونے والے مذاکرات کو بہت سراہا گیا ہے اور انہیں تسلیم کیے جانے کی طرف قدم قرار دیا ہے۔
طالبان کے وزیر خارجہ نے پیر کو بات چیت کے دوران کہا تھا ’ناروے کی جانب سے ہمیں یہ موقع فراہم کیا جانا ایک کامیابی ہے کیونکہ اس کی بدولت ہم نے اپنا سٹیج دنیا کے ساتھ شیئر کیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم کو یقین ہے کہ ان ملاقاتوں کی بدولت ہم افغانستان میں صحت، تعلیم اور دوسرے انسانی ضرورت کے شعبوں کے لیے مدد حاصل کر پائیں گے۔‘
ابھی تک کسی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں ہے اور بین الاقوامی برادری بھی کسی قسم کی امداد جاری کرنے سے قبل یہ مشاہدہ کر رہی ہے کہ وہ ملک کو طرح چلانا چاہ رہے ہیں۔

طالبان کے وفد نے ناروے میں کئی مغربی سفارت کاروں سے ملاقات کی (فوٹو: اے ایف پی)

ناروے کے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ اوسلو میں ہونے والی اس ملاقات سے بہت سے لوگوں کو تکلیف ہوئی تاہم یہ ’انسانی المیے‘ سے بچنے کے لیے پہلا قدم تھا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’کیا اس کا متبادل یہ ہے کہ افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ دس لاکھ بچے جو بھوک سے مرنے کے قریب ہیں۔ یہ کوئی آپشن نہیں، ہمیں دنیا کو اسی طرح دیکھنا ہے، جیسی وہ ہے۔‘
ناروے کے سٹیٹ سیکریٹری ہنریک تھونے نے ٹی این بی نیوز ایجنسی کو طالبان کے وفد سے ملاقات سے قبل بتایا تھا ’ہم ٹھوس مطالبات کرنے جا رہے ہیں، اور ان (طالبان) کو دیکھیں گے کہ وہ ان کو پورے کرتے ہیں یا نہیں۔‘
مذاکرات کے بعد مزید کوئی بیان جاری کیے بغیر منگل کی رات کو طالبان کا وفد ناروے سے روانہ ہو گیا تھا۔

شیئر: