Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوشل میڈیا پر ججز کو سکینڈلائز کرنے کے خلاف کچھ کرنا پڑے گا: نامزد چیف جسٹس  

جسٹس عمر عطا بندیال 2 فروری 2022 کو چیف جسٹس کے عہدے کا حلف لیں گے۔ فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان کی سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو سکینڈلائز کیا جاتا ہے جس کے خلاف کچھ کرنا پڑے گا۔  
منگل کو چیف جسٹس گلزار احمد کے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نامزد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’ججز کو سکینڈلائز کرنا غیر قانونی، غیر اخلاقی، غیر مہذب اور غیر آئینی بھی ہے۔‘  
انھوں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’مسٹر احسن بھون ہم اس کے لیے بار سے مدد مانگیں گے، میں دہرا رہا ہوں کہ بار سے مدد مانگیں گے۔‘  
نامزد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ’جج حضرات اپنی اصلاح کرتے ہیں اسی لیے جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں اقلیت اکثریت میں بدلی۔ عدالتی فیصلے کےخلاف سوشل میڈیا پر طوفان برپا گیا۔ اس کا راستہ روکنا ہوگا۔‘  
کورٹ روم نمبر ایک میں ہونے والے فل کورٹ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے تمام 16 ججز، اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر، وکلا اور ججز کے اہل خانہ شریک ہوئے۔ 
فل کورٹ ریفرنس میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس گلزار احمد کی خدمات کے ذکر کے ساتھ ساتھ وکلا نمائندگان نے اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی سمیت اہم عدالتی امور پر خوب گلے شکوے بھی کیے۔  
اپنی عدالتی ترجیحات بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے زیر التوا کیسز میں اضافہ ہوا۔ اس کے لیے کوشش کریں گے کہ انصاف کی فراہمی کا نظام بہتر اور تیز ہو۔ پاکستان میں ٹیکس نیٹ میں اضافے اور بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے کے لیے جب بھی عدلیہ کا کردار درکار ہوگا، ہم ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔  
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’چیف جسٹس گلزار کو دو بڑے چیلنجز کا سامنا تھا جن میں ایک کورونا تھا تاہم انھوں نے اس دوران ایک دن کے لیے بھی عدالت بند نہیں ہونے دی۔ دوسرا بڑا چیلنج جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس اور اس حوالے سے درخواستیں تھیں۔‘  
ہم نے ’فائز عیسیٰ کیس میں 60 سے زائد سماعتیں کیں اور دن رات کام کیا۔ اس وجہ سے زیر التوا کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ ان زیر التوا کیسز کو کم کرنے کے لیے ججز نے عوامی رائے کے برعکس سردیوں اور گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی کام کیا۔‘ 
اپنے خطاب میں چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ’20 سال تک بطور جج اپنی خدمات محنت اور ایمانداری سے سرانجام دینے کے بعد آج ریٹائر ہو رہا ہوں۔ جب چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا تو 38,680 کیسز التوا میں تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے بحیثیت چیف جسٹس 4 ہزار 392 کیسز کا فیصلہ سنایا۔ میرے دور میں مجموعی طور پر 27 ہزار 426 کیسز کے فیصلے ہوئے۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’عدلیہ میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دیا۔ کراچی اور کوئٹہ رجسٹریز میں  بار رومز کی تزئین کروائی۔ سپریم کورٹ میں خاتون جج کی تقرری سے نئی تاریخ رقم ہوئی۔ قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی میں پولیس ریفارمز پر کام کیا گیا۔ فاٹا انضمام کے بعد خیبر پختونخوا میں عدالتوں اور ججز میں اضافہ کیا گیا۔‘  
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ ’کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ آئین توڑنے والا سزا پا کر بھاگ جائے گا۔ بار اور بنچ میں ایسی شخصیات موجود تھیں جنہوں نے طاقت کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔ عدلیہ اپنی آزادی کے دفاع میں متحد ہوتی تو 2007 میں کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’اعلیٰ عدلیہ میں اس وقت 53 ہزار کیسز زیر التوا ہیں جو آنے والے چیف جسٹس کے لیے بڑا چیلنج ہوں گے۔‘ 

فائز عیسیٰ کیس میں60 سے زائد سماعتیں کیں اور دن رات کام کیا۔ اس وجہ سے زیرالتوا کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا:نامزد چیف جسٹس( فائل فوٹو ٹوئٹر)

وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل حفیظ الرحمان چوپدری نے کہا کہ ’چیف جسٹس گلزار احمد نے دفاعی زمینوں کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کا قابل تحسین ازخود نوٹس لیا۔ تاہم اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے حوالے سے مسائل حل نہیں ہوئے۔ جوڈیشل کمیشن کے قیام سے امید بندھی تھی کہ ججز تقرری میرٹ اور شفافیت کی بنیاد پر ہوگی۔ بدقسمتی سے اکثر ججز صاحبان کی تعیناتی مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں کی گئی۔ بار کا مطالبہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن رولز میں ترمیم کر کے ججز تعیناتی کے عمل کو شفاف بنایا جائے۔‘ 
انھوں نے کہا کہ ’چیف جسٹس صاحب، بار کی تاحیات نااہلی کی درخواست اعتراضات لگا کر واپس کرنے پر مایوسی ہوئی ہے۔ یہ تاثر عام ہے کہ خفیہ ادارے ارباب اختیار کی نجی زندگی کی معلومات یکجا کر کے انہیں بلیک میل کرتے ہیں۔ عدالت عظمی خفیہ اداروں کی بلیک میلنگ پر غیر جانبدارانہ نگرانی کرے۔‘  

فل کورٹ ریفرنس میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس گلزار احمد کی خدمات کے ذکر کے ساتھ ساتھ وکلا نمائندگان نے  گلے شکوے بھی کیے: فوٹو سپریم کورٹ

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن احسن بھون نے اپنے خطاب میں چیف جسٹس کے لیگل کیریئر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’چیف جسٹس گلزار احمد کی بطور جج سپریم کورٹ تقرری میں سینیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی کی گئی۔ اسلام آباد، لاہور اور پشاور ہائی کورٹ میں ججز کی تعیناتی میں سینیارٹی کے اصول پامال کیے گئے۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’میرٹ کے برعکس تعیناتیوں کے باعث عدلیہ کو سنگین بحران کا سامنا ہے۔ جوڈیشل کمیشن میں ججز کی اکثریت سے باقی نمائندوں کی رائے غیر مؤثر کر دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ میں ججز کی زیادہ تر تعیناتیاں ذاتی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر ہوئیں۔ وکلاء تنظیموں نے آرٹیکل 209 کے تحت جوڈیشل کمیشن کے اختیارات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ قانون اور آئین کے تحت یکساں احتساب کے بجائے من پسند احتساب کو ترجیح دی گئی۔‘ 

شیئر: