Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسداد ریپ ایکٹ کے تحت دو ماہ میں ایک ہزار سے زائد مقدمات درج

پولیس حکام نے بدھ کو انسداد ریپ ایکٹ 2021 پر عمل درآمد سے متعلق کمیٹی کو بریفنگ دی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
گذشتہ دو ماہ میں ملک میں خواتین کے خلاف کے جرائم کے ایک ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ 
گذشتہ دو ماہ میں پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور اسلام آباد میں انسداد ریپ ایکٹ 2021 (ٹرائل اینڈ انوسٹیگیشن) کے تحت ایک ہزار سے زائد مقدمات درج ہوئے ہیں، جبکہ بلوچستان پولیس نے اس حوالے سے اعداد و شمار کمیٹی کو فراہم نہیں کیے۔ 
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو پولیس حکام نے بدھ کو انسداد ریپ ایکٹ 2021 پر عملدرآمد سے متعلق بریفنگ دی۔ 
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو ڈی آئی جی انویسٹی گیشن پنجاب نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’گزشتہ پچاس دنوں میں ہراسیت، خواتین، بچوں اور خواجہ سراؤں کے خلاف مختلف قسم چھوٹے جرائم کے 300 سے زیادہ کیسز درج ہوچکے ہیں، جبکہ ریپ اور بچوں کے ساتھ بدفعلی کے 263 کیسز درج ہوئے۔‘
 پولیس حکام کے مطابق دیگر کیسز کو ملا کر گذشتہ پچاس دنوں میں کیسز کی تعداد 1000 کے قریب ہے۔  
پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن وقار ستی نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’خواتین کے ریپ اور بچوں کے ساتھ بدفعلی کے 200 سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔‘  
 سندھ پولیس کے ایڈیشنل آئی جی نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ سندھ اور خصوصاً کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر خواتین اور بچوں کے خلاف مختلف قسم کے جرائم کے 10 سے زیادہ کیسز رپورٹ ہورہے ہیں۔ 
ایڈیشنل آئی جی نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’گذشتہ دو ماہ کے دوران صوبے میں ریپ، ہراسیت، اغوا اور جنسی جرائم کے 379 کیسز درج ہوئے ہیں۔‘
خیبر پختونخوا پولیس کے حکام نے سینیٹ کی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ گذشتہ دو ماہ میں خواتین، خواجہ سراؤں اور بچوں کے خلاف مختلف جرائم کے 100 کے لگ بھگ کیسز درج ہوئے، جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں خواتین اور بچوں کے حوالے سے جرائم کے مقدموں کی تعداد 19 بتائی گئی ہے۔ بلوچستان پولیس حکام نے اس حوالے سے کمیٹی کے ساتھ اعدادوشمار شیئر نہیں کیے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے خواتین اور بچوں کے خلاف کیسز کی تعداد پر تشویش کا اظہار کیا تو سندھ پولیس حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ’یہ تعداد صرف ریپ کے کیسز کی نہیں بلکہ خواتین اور بچوں سے متعلق چھوٹے جرائم بھی شامل ہیں، جس میں ہراسیت، اغوا اور دیگر جرائم شامل ہیں۔‘ 

آئی جی بلوچستان سے پوچھا گیا کہ ’اینٹی ریپ ایکٹ کے تحت خواتین سے تفتیش کیسے کی جاتی ہے؟‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

خیبر پختونخوا پولیس حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ’انسداد ریپ ایکٹ کے بعد خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کے تمام کیسز اسی زمرے میں شمار کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے اعدادوشمار میں اضافہ ہوا ہے۔‘
آئی جی بلوچستان نے ویڈیو لنک کے ذریعے کمیٹی میں شرکت کرتے ہوئے بتایا کہ کوئٹہ کے علاوہ دیگر اضلاع میں خواتین پولیس اہلکاروں کی شدید کمی ہے۔ ’صوبے میں روایات کے باعث خواتین پولیس کی خالی آسامیوں پر بھرتی کی درخواستیں بھی موصول نہیں ہوتیں۔‘  
کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر علی ظفر نے آئی جی بلوچستان سے پوچھا کہ ’اینٹی ریپ ایکٹ کے تحت خواتین سے تفتیش کیسے کی جاتی ہے؟‘  
آئی جی بلوچستان نے بتایا کہ جن اضلاع میں خواتین پولیس اہلکار موجود نہیں وہاں مرد پولیس اہلکار ہی تفتیش کرتے ہیں اور ایک عرصے سے ایسے ہی چلا آرہا ہے۔ 
اس پر کمیٹی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’پولیس رولز میں نرمی کرتے ہوئے مقامی خواتین پولیس اہلکاروں کا دیگر اضلاع میں تبادلہ نہ کریں، اس سے صوبے میں خواتین پولیس اہلکاروں کی بھرتی میں مسائل دور کیے جاسکتے ہیں۔‘  
آئی جی بلوچستان نے بتایا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ خواتین تبادلے کے باعث بھرتی نہیں ہو رہیں بلکہ صوبے میں روایات کی وجہ سے کوئی خواتین کی اسامیوں پر درخواست ہی نہیں دیتا۔‘  
سینیٹر کامران مرتضی نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ‘ایسا نہیں ہے کہ خواتین بھرتی نہیں ہونا چاہیں گی، آپ کمیٹی کو تمام صوبوں میں خالی اسامیوں پر بھرتیوں کے اشتہارات کا ڈیٹا فراہم کریں۔‘  

کمیٹی نے بلوچستان پولیس میں خواتین اہلکاروں کی بھرتیوں پر رپورٹ طلب کرلی ہے (فائل فوٹو: اے پی)

کمیٹی نے بلوچستان پولیس میں خواتین اہلکاروں کی بھرتیوں پر رپورٹ طلب کرلی ہے۔ 
’کراچی میں سٹریٹ کرائمز میں اضافے کا تاثر دیا جارہا ہے‘ 
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں وفاقی وزیر سینیٹر شبلی فراز نے کراچی میں بڑھتے ہوئے سٹریٹ کرائمز پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’کراچی کے حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ اب کراچی جاتے ہوئے بھی خوف آتا ہے، مجبوری کے بغیر مجھے نہیں لگتا کہ کراچی اب کوئی جاتا ہوگا۔ کراچی جیسے شہر کی یہ حالت افسوسناک ہے۔‘
ایڈشنل آئی جی سندھ سپیشل برانچ جاوید عالم اوڈھو نے کراچی میں بڑھتے ہوئے سٹریٹ کرائمز پر بریفنگ دیتے ہوئے کمیٹی کو بتایا کہ ‘گذشتہ دنوں بدقستمی سے سٹریک کرائم کے دوران میڈیا ورکر قتل ہوا، جس کی وجہ سے میڈیا کراچی میں سٹریٹ کرائمز زیادہ ہونے کا تاثر دے رہا ہے۔‘ 

شیئر: