Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی میں اب غیر مقامی افراد موبائل فروخت نہیں کرسکیں گے

فروری 2022 میں بھی جرائم کی تعداد میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی (فوٹو اے ایف پی)
کراچی میں الیکڑانک ڈیلر ایسوسی ایشن نے سی پی ایل سی اور پولیس سے مشاورت کے بعد نئے ایس او پیز جاری کیے ہیں جن کے تحت مارکیٹ میں غیر مقامی شہریوں کے موبائل فون فروخت کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
الیکڑانک ڈیلر ایسوسی ایشن کی جانب سے مذکورہ اقدام کراچی میں سٹریٹ کرائمز خصوصاً موبائل چھینے کی وارداتوں پر قابو پانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
اس پابندی سے کراچی میں مقیم ملک کے دیگر حصوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد اپنے استعمال شدہ یا نئے موبائل مارکیٹ میں فروخت نہیں کرسکیں گے۔ 
محمد رضوان پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر گجر خان کے رہائشی ہیں۔ وہ کراچی میں روزگار کے سلسلے میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے موبائل فون فروخت کرنے کے لیے کراچی کا شہری ہونے کی شرط کے باعث وہ اپنا فون نہیں بیچ پا رہے ہیں۔ 
محمد رضوان کا کہنا ہے کہ ’دو ماہ میں پیسے جمع کیے تھے کہ پرانا فون فروخت کرکے کچھ پیسے ملا کر نیا فون خرید سکوں، لیکن مارکیٹ آنے پر معلوم ہوا کہ میرے شناختی کارڈ پر گجر خان کا پتہ ہے تو میں اپنا پرانا فون فروخت نہیں کرسکتا۔‘
کراچی الیکٹرانک ڈیلر ایسوسی ایشن کے فیصلے کے مطابق نہ صرف غیرمقامی افراد اب کراچی میں موبائل فون فروخت نہیں کرسکیں گے، بلکہ اوورسیز پاکستانیوں کو موبائل فون فروخت کرنے کے لیے اپنے پاسپورٹ کی کاپی اور رسید دکھانی ہوگی۔
اس فیصلے پر عوام نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے، جبکہ دکانداروں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے کام متاثر تو ہورہا ہے، لیکن اس سے مستقبل میں فائدہ ہوگا۔
چیئرمین لا اینڈ کمیٹی کراچی الیکٹرانک ڈیلر ایسوسی ایشن منہاج گلفام نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شہر میں موبائل فون کے چوری اور چھیننے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
موجودہ صوتحال میں چھینے گئے اور چوری شدہ موبائل کی خرید و فروخت کے لیے نیا نظام متعارف کروایا گیا ہے۔ 
منہاج گلفام نے اردو نیوز کو بتایا کہ پولیس اور سی پی ایل سی کے تعاون سے کراچی الیکٹرانک ڈیلر ایسوسی ایشن نے ایس او پیز بنائے ہیں۔
’اب موبائل فون فروخت کے لیے کراچی کا شناختی کارڈ ہونا لازمی ہے، بغیر تصدیق کوئی بھی دکاندار موبائل فون نہیں خریدے گا۔ جب کہ اوورسیز پاکستانی اپنے پاسپورٹ کی کاپی اور موبائل خریداری کی رسید دکھا کر موبائل فروخت کرسکیں گے۔‘
واضح رہے کہ سی پی ایل سی کی جانب سے جاری کردہ اعداد شمار کے مطابق شہر قائد میں فروری 2022 میں بھی جرائم کی تعداد میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی اور لوٹ مار، چوری، چھینا جھپٹی کی وارداتیں جاری رہیں۔ فروری کے 28 روز میں 2199 موبائل فون چھیننے کی وارداتیں رپورٹ ہوئیں جبکہ رواں سال کے پہلے مہینے جنوری میں یہ تعداد 2499 تھی۔

محمد کاشف کراچی میں ہارون موبائل مارکیٹ میں گزشتہ چار سال سے کاروبار کر رہے ہیں (فوٹو ٹوئٹر)

کراچی کے رہائشی طحہٰ مشتاق کا کہنا ہے کہ موبائل فون کی فروخت پر کراچی کے رہائشی ہونے کا فیصلہ بہت اچھا ہے۔ اس سے بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں کراچی کا رہائشی ہوں اور اپنا پرانا موبائل فون فروخت کررہا ہوں۔ میں نے تصدیق کے لیے اپنا شناختی کارڈ دیا ہے جس میں کراچی کا پتہ درج ہے۔ میرے فون کی سی پی ایل سی سے تصدیق ہوئی ہے اور میرا فون کلیئر ہے۔ اب میں بھی مطمئن ہوں کہ آج کے بعد میرے فون کی ذمہ داری میری نہیں بلکہ خریدار کی ہے۔‘
محمد کاشف کراچی میں ہارون موبائل مارکیٹ میں گزشتہ چار سال سے کاروبار کر رہے ہیں۔ ان کا استعمال شدہ موبائل فون کی خرید و فروخت کا کاربار ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ موبائل فون کی خریداری کے لیے متعارف کروایا گیا نیا نظام بہتر ہے۔ ’اس سے ہمارا کاروبار متاثر تو ہو رہا ہے، لیکن اب استعمال شدہ موبائل کی خریداری پر اطمینان ہے۔ موبائل فروخت کرنے والے کا پتہ کراچی میں ہونے کی وجہ سے اگر کوئی کوئی فون کملپین پر آتا بھی ہے تو اسے ٹریک کیا جاسکتا ہے اور فروخت کرنے والے تک پہنچنا آسان ہوجاتا ہے۔‘
محمد گلفام کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک ڈیلر ایسوسی ایشن اور انتظامیہ چوری اور موبائل فون چھیننے کی روک تھام کے لیے مسلسل اقدامات کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق پولیس کے تعاون سے اب تک 18 کروڑ مالیت کے موبائل فون برآمد ہو چکے ہیں۔ برآمد شدہ موبائل مالکان کے حوالے کیے ہیں۔
’شہریوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے موبائل فون چھینے اور چوری ہونے کی صورت میں سی پی ایل سی میں رپورٹ ضرور درج کروائیں۔ ‘

پولیس کے تعاون سے اب تک 18 کروڑ مالیت کے موبائل فون برآمد ہو چکے ہیں (فوٹو اے ایف پی)

دوسری جانب گجر خان کے رہائشی محمد رضوان نے انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ غیر مقامی افراد کے موبائل فون فروخت کرنے کے حوالے سے کوئی نظام بنایا جائے۔
’غیر مقامی افراد کی ایک بڑی تعداد کراچی میں رہائش پذیر ہے۔ ان میں بیشتر افراد ایسے ہیں جو میری طرح روزگار کے سلسلے میں کراچی میں مقیم ہیں۔ ہم بھی پاکستانی شہری ہیں۔ ہمیں بھی محدود وسائل میں خوشیاں منانے کا حق ہونا چاہیے۔‘

شیئر: