Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہے فرنگن کے گورے ہاتھ میں دل، جان کا صاحبو خدا حافظ‘

فرانس میں آباد قوم کا ’فرانک‘ ہے اور لفظ فرنگی وہیں سے آیا۔ فوٹو: اے ایف پی
آپ ہی آپ ہے پکار اٹھتا 
دل بھی جیسے گھڑی فرنگی ہے 
شعر انشا اللہ خاں انشا کا ہے اور خوب ہے۔ شعر سمجھنے سے پہلے فرنگی کی گھڑی کا کمال اور اُس سے بھی  پہلے خود ’فرنگی‘ کا حال ملاحظہ کریں۔  
لفظ ’فرنگ‘ فارسی زبان سے متعلق ہے، جو اصلاً لفظ ’فرانک‘ کی تفریس (فارسی صورت) ہے، ’فرانک‘ فرانس میں آباد قوم کا نام ہے، اس لیے فرنگ کا اطلاق اول فرانس پر ہوا تاہم بعد میں کُل یورپی اقوام اس کی تعریف میں داخل ہو گئیں۔ 
خاص ہندوستان کے پس منظر میں برطانیہ اور اس سے متعلق ہر شے فرنگ اور فرنگی کہلائی۔ چوں کہ اہل یورپ نسلاً سفید فام اور مذہباً مسیحی ہیں، لہٰذا ایک طرف ہر گوری چمڑی والا فرنگی پکارا گیا تو دوسری جانب یہ لفظ 'نصاریٰ' کا مترادف قرار پایا۔ 
جب فرنگ اور فرنگی کے معنی و مفہوم وضع ہوئے تو فرنگی کی نسبت سے اس کی تانیث ’فرنگن‘ بھی ایجاد کر لی گئی۔ دیکھیں خواجہ محمد وزیر کیا کہہ رہے ہیں: 
ہے فرنگن کے گورے ہاتھ میں دل 
جان کا صاحبو خدا حافظ 
پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ عربی میں ساکن حرف سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا، ایسے میں عجمی زبانوں سے عربی میں داخل ہونے والے ایسے تمام الفاظ سے قبل ہمزہ (الف) کا اضافہ کرکے ان کی تعریب (عربی صورت) بنا لی جاتی ہے۔ اس بات کو سٹیٹر(stater) سے إستار اور سکندر سے اِسکندر کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ 
’فرانک‘ براہ راست یا بصورت ’فرنگ‘ جب عربی میں پہنچا تو اہل عرب نے اپنے قاعدے کے مطابق اس فرنگ کو ’اِفْرِنجُ‘ اور ’اِفْرِنَجَة‘ کی صورت میں ڈھال لیا۔ جس کا اطلاق انگریزوں اور کُل اہل یورپ دونوں پر کیا گیا۔ 
یہی وجہ ہے کہ عربی میں یورپ کو ’أوروبا‘ کے علاوہ ’بلادُ الافرنج‘ بھی کہا جاتا ہے۔ پھر کسی بھی فرد یا شے کی ’اِفْرِنجُ‘ سے نسبت کے لیے ’اِفْرَنْجِيّ‘ کا لفظ وضع کیا گیا۔ مثلاً جسے ہم ڈبل روٹی کہتے ہیں وہ عربی میں ’خُبْزُ اِفْرَنْجِيّ‘ کہلاتی ہے۔ 

ہندوستان میں ہر گوری چمڑی والا شخص فرنگی پکارا گیا۔ فوٹو: انسپلیش

اب بات کرتے ہیں فرنگی کی اُس گھڑی کی جس کے آپ ہی آپ بول اٹھنے پر انشا اللہ خان انشا نے حیرت کا اظہار کیا اور دل کو اس کی مثل قرار دیا۔ 
آج بلکہ آج سے سو سال پہلے بھی دیوار پر جھولتے پنڈولم یا میز پر رکھے ٹائم پیس کا وقتِ مقررہ پر بولنا یقیناً حیرت کی بات نہیں تھی، مگر آپ دو سو سال قبل شاعر کے عہد کا تصور کریں تو بات سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ کیونکر اس زمانے کے لوگوں کے لیے گھڑی اور گھڑیال کا ازخود بولنا کسی کمال سے کم نہیں تھا۔ 
عہد قدیم میں وقت کی تعیین کے لیے چڑھتے ڈھلتے سورج اور اپنا مقام بدلتے ستاروں سے کام لیا جاتا تھا، اُس عہد میں شب و روز کو آٹھ پہروں میں تقسیم کیا گیا تھا اور ہر پہر تین گھنٹوں پر مشتمل تھا۔ 
بکرما جیت کے یادگار بکرمی کیلنڈر اور اس کی نسبت سے نانک شاہی کیلنڈر میں ان آٹھ پہروں کے جداگانہ نام اب بھی موجود ہیں، تاہم اردو میں اس کی یادگار فقط دوپہر، سہ پہر اور رات کا پچھلا پہر باقی رہ گئے ہیں۔  
اس زمانے میں ہر پہر کے آغاز پر کہیں توپ داغی جاتی، کہیں گھنٹہ بجایا جاتا یا پیتل کی تھالی پر موگری سے ضرب لگائی جاتی، اسی سے محاورہ ’پَہَر بَجانا‘ پیدا ہوا، پھر اس نسبت سے ’پہر‘ بجانے پر مامور شخص کو 'پہریدار' کہا گیا، جو بعد میں چوکیدار اور محافظ کا مترادف قرار پایا۔ 
کہاوت ہے ’آئی تھی آگ لینے بن گئی گھر کی مالک‘، یہی کچھ ان ہندوستان کے ساتھ ہوا۔جو یہاں تاجروں کے بھیس میں آئے اور مُلک کے مالک بن گئے۔  

عربی میں یورپ کو ’أوروبا‘ کے علاوہ ’بلادُ الافرنج‘ بھی کہا جاتا ہے۔ فوٹو: انسپلیش

انگریزوں نے ہندوستان کے مقامی افراد پر مشتمل پہلی باوردی فوج تشکیل دی تو اس کے لیے جنوبی ہند میں ’تلنگانہ‘ سے سپاہی بھرتی کیے، جو اپنے وطن کی نسبت سے ’تلنگا‘ کہلائے۔ 
اس وردی کے گھمنڈ نے زور، زبردستی اور زیادتی کو جنم دیا، چنانچہ اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی میں ان تلنگوں نے دلی میں قیامت ڈھائی، جس کے بعد ’تلنگا پن‘ کی اصطلاح سامنے آئی۔ یہ اصطلاح زبان و قلم پر برابر جاری ہے، مگر حیرت انگیز طور پر یہ اردو کی کسی معتبر لغت میں راہ نہ پاسکی۔  
خیر جس طرح انگریزوں کے مقامی سپاہی ’تلنگا‘ کہلائے ایسے ہی گوروں پر مشتمل سپاہ کو ’ولایتی‘ پکارا گیا۔ پھر اس لفظ نے قبول عام حاصل کیا، یوں یہ ’ولائتی‘ انگریزی زبان میں بصورت بلائٹی (Blighty) داخل ہوا۔ اس کے اول معنی انگریزی سپاہی اور دوم معنی ’غیرملکی‘ قرار پائے۔ 
صاف ظاہر ہے کہ ’ولایتی‘ کو ’وِلایت‘ سے نسبت ہے۔ اور ’وِلایت‘ کے معنی میں مالک ہونا ، قابض ہونا اور حکومت ہونا شامل ہیں، جب کہ وہ مَلک یا ممالک جن پر ایک حاکم قابض ہو، وِلایت کہلاتا ہے۔ اس بات کو نظیر اکبرآبادی کی نظم ’فنا‘ کے ایک بند سے سمجھیں: 
وہ شخص تھے جو سات ولایت کے بادشاہ  
حشمت میں جن کی عرش سے اونچی تھی بارگاہ  
مرتے ہی ان کے تن ہوئے گلیوں کی خاکِ راہ  
اب ان کے حال کی بھی یہی بات ہے گواہ  
جو خاک سے بنا ہے وہ آخر کو خاک ہے 

وقت کا تعیین چڑھتے ڈھلتے سورج سے کیا جاتا تھا۔ فوٹو: انسپلیش

اب تک کے ذکر میں ’ولایت‘ حرف ’واؤ‘ کے زیر کے ساتھ تھا، جو اقلیم، ملک، صوبہ، ریاست ، حکومت، سلطنت اور حاکم سلطنت کا نمائندہ ہے۔ تاہم جب یہ لفظ ’واؤ‘ کے زبر کے ساتھ ’وَلایت‘ ہو تو یہ ایک ہی جست میں تصوف کی کئی منازل طے کرجاتا ہے۔  
’وَلایَت‘ کے لفظی معنی کسی ایک چیز کے دوسری چیز سے اس قدر قریب ہونے کے ہیں کہ بیچ میں تیسری چیز کی گنجائش نہ ہو۔  اس قربت کے رعایت سے اس کے مفہوم میں ’خدمت خلق‘ اور مرشد اور مرید کا تعلق خاص بھی داخل ہے۔ 
اب اس سلسلے کی آخری بات اور وہ یہ کہ 'ولایت' کی اصل ’ولی‘ ہے، جو عربی زبان کا واحد لفظ ہے جس سے مشتق یعنی نکلنے والے الفاظ کی تعداد 70 تک پہنچتی ہے۔ 

شیئر: