Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کے مراسلے پر اپوزیشن کا ان کیمرہ اجلاس بلانے کا مطالبہ

اسد عمر نے اپنی نیوز کانفرنس میں الزام لگایا کہ ’اس مراسلے میں براہ راست نوازشریف ملوث ہیں‘ (فائل فوٹو: اے پی)
پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کو چیلنج کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے جس دھمکی آمیر خط کا ذکر کیا ہے اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے، اور اگر خط سنجیدہ اور حقائق پر مبنی ہوا تو اپوزیشن وزیراعظم کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ اگر حکومت خط سامنے نہ لائی تو اقتدار میں آکر خط اخبار میں شائع کردیں گے۔
دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ ’یہ خط صرف چیف جسٹس آف پاکستان کو دکھایا جاسکتا ہے۔‘
خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ کے جلسے میں جیب سے ایک کاغذ نکال کر لہراتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں کسی پر الزام نہیں لگا رہا، میرے پاس یہ خط ہے جس کو شک ہو اسے آف دی ریکارڈ دکھا سکتا ہوں۔ اس میں ہمیں حکومت گرانے کی دھمکی دی گئی ہے۔‘
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’عدم اعتماد کا تعلق براہ راست اس خط سے ہے۔ ہمارے کچھ لوگ جان بوجھ کر اور کچھ انجانے میں اس سازش کا حصہ بن رہے ہیں۔‘
تاہم وزیراعظم کے خطاب کے فوراً بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’میرا نہیں خیال کہ یہ خط کسی کو دکھایا جاسکتا ہے۔‘
اس معاملے پر جب قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے سوال ہوا تو انہوں نے کہا کہ ’وزیراعظم یہ خط پارلیمنٹ میں پیش کریں۔ اگر وہ خط سچا ہوا اور ان کے مجھ پر لگائے گئے جاوید صادق فرنٹ مین والے دعوے کی طرح یا 35 پنکچرز کی طرح نہ ہوا تو میں یقین دلاتا ہوں کہ اپوزیشن وزیراعظم کے ساتھ کھڑی ہوگی۔‘
اس معاملے پر منگل کو پھر حکومتی رہنماؤں کا اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم عمران خان نے اپنے قریبی ساتھیوں کو خط کے بارے میں اعتماد میں لیا۔
اجلاس کے بعد وفاقی وزرا اسد عمر اور فواد چودھری نے منگل کو ہی نیوز کانفرنس میں اعلان کیا کہ وزیراعظم ملک کے سب سے بڑے ادارے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو یہ خط دکھانے کو تیار ہیں۔ اس کے علاوہ کسی کو نہیں دکھا سکتے۔ یہ مراسلہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے بھیجا گیا تھا۔‘
’یہ خط اہم اس لیے ہے کہ اس میں براہ راست عدم اعتماد کی تحریک کا ذکر ہے۔ ابھی عدم اعتماد کی تحریک پیش نہیں ہوئی تھی جب یہ مراسلہ بھیجا گیا۔‘

عمران خان نے کہا تھا کہ ’میرے پاس یہ خط ہے اس میں ہمیں حکومت گرانے کی دھمکی دی گئی ہے‘ (فوٹو: سکرین گریب)

انہوں نے بتایا کہ اس میں بڑا واضح ذکر ہو رہا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک آرہی ہے اور اس میں دو ٹوک الفاظ میں یہ بھی لکھا گیا کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ ہوئی اور اگر عمران خان وزیراعظم رہے تو ’خوفناک نتائج‘ آسکتے ہیں۔
اسد عمر کے بقول ’یہ مراسلہ اعلٰ ترین سول و عسکری شخصیات کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔ کابینہ کے کچھ اراکین کو ہی معلوم ہے کہ اس میں کیا لکھا ہے۔‘
’وزیراعظم نے کہا ہے کہ خط پر کسی کو شک ہے تو وہ چیف جسٹس آف پاکستان کو دکھانے کے لیے تیار ہیں۔‘
وفاقی وزرا کی نیوز کانفرنس کے بعد اپوزیشن کی جانب سے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نیوز کانفرنس میں اپنا مطالبہ دہراتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ’حکومت اس خط کو پارلیمنٹ کے ان کیمرہ اجلاس میں پیش کرے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بتایا جائے کہ کس نے اتنی جرات کی کہ پاکستان کے عوام کو دھمکی دی۔ دو وفاقی وزرا نے بھی نیوز کانفرنس میں یہی باتیں دہرائی ہیں۔ ہمارے ملک کو دھمکی آئی ہے تو ہم سب نے مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہے۔‘

مریم نواز نے کہا کہ ’نوازشریف کو تین بار وزارت عظمٰی کے عہدے سے ہٹایا گیا لیکن انہوں نے مُلکی سلامتی پر آنچ نہیں آنے دی‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ اب خط نہیں دکھائیں گے تو چار اپریل کو خط دیکھیں گے اور خط اخبار میں چھاپا جائے گا۔ وزیراعظم اس معاملے پر معافی مانگیں یا ثبوت پیش کریں۔‘
اسی معاملے پر حکومت کی جانب سے ایوان میں موجود ارکان پارلیمنٹ کو محب وطن قرار دیتے ہوئے تمام الزام نواز شریف پر ڈال دیا گیا ہے۔
اسد عمر نے اپنی نیوز کانفرنس میں الزام لگایا کہ ’اس مراسلے میں براہ راست نوازشریف ملوث ہیں۔ اس میں براہ راست عدم اعتماد کا ذکر ہے۔ مراسلے میں براہ راست پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ذکر ہوا۔‘
’مراسلے میں دو ٹوک لکھا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوئی تو خطرناک نتائج ہوں گے۔ لہٰذا بیرونی ہاتھ اور عدم اعتماد کی تحریک آپس میں ملے ہوئے ہیں۔‘
اس کے جواب میں مریم نواز میدان میں اتریں اور کہا کہ ’نوازشریف کو تین بار وزارت عظمٰی کے عہدے سے ہٹایا گیا لیکن انہوں نے مُلکی سلامتی پر آنچ نہیں آنے دی اور نا کسی پر جھوٹے الزام لگائے۔‘
’اس سے زیادہ مُلکی سلامتی کے لیے خطرناک بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ملک کا وزیراعظم اپنا اقتدار بچانے کے لیے جھوٹی سازشوں کا ڈرامہ کر کے مُلک کا تماشا بنا دے؟‘
مریم نواز نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط دکھانے کا کہنا ان کی مجھے بچا لو فریادوں کا حصہ ہے۔ براہ مہربانی سپریم کورٹ کو اپنے فتنے اور شر سے دور رکھیے۔‘
پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ بھی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ اگر حکومت خط سامنے نہ لائی تو حکومت میں آنے کے بعد سب سے پہلے اس کی تحقیقات کروائیں گے۔

شیئر: