Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاپتہ طالب علم عبدالحفیظ بلوچ منظر عام پر آگئے

فاضل یعقوب کا کہنا تھا کہ خضدار اور اسلام آباد میں حفیظ بلوچ کی بازیابی کے لیے احتجاج بھی کیا گیا۔ (فوٹو: ٹوئٹر بلوچ سٹوڈنٹس کونسل)
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والے قائداعظم یونیورسٹی کے لاپتہ طالب علم عبدالحفیظ بلوچ منظر عام پر آ گئے ہیں۔
بدھ کو اہلخانہ نے تصدیق کی ہے کہ حفیظ بلوچ کو جعفرآباد کی ایک عدالت میں سی ٹی ڈی حکام نے پیش کیا جہاں ان کے بھائی ڈاکٹر رضا باجوئی نے ان سے ملاقات کی۔
ملاقات کے حوالے سے ڈاکٹر رضا باجوئی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انہوں نے جعفرآباد کے اوستہ محمد جوڈیشل کمپلیکس میں اپنے بھائی سے ملاقات کی، وہ صحت مند دکھائی دیے۔ عدالت میں پیشی کے بعد انہیں ڈیرہ مراد جمالی کے ڈسٹرکٹ جیل منتقل کیا گیا۔‘
پولیس کے مطابق حفیظ بلوچ کو انسداد دہشت گردی ایکٹ اور دھماکا خیز مواد ایکٹ کے ایک مقدمے میں گرفتار کیا ہے اور اس کے خلاف سی ٹی ڈی پولیس کے نصیرآباد تھانہ میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
مقدمے کے متن کے مطابق ’حفیظ بلوچ کو 15 مارچ کو جعفرآباد کے علاقے سیف آباد شاخ گوٹھ محمد مٹھل مگسی سے گرفتار کیا گیا اور اس کے قبضے سے دو کلو گرام باودی مواد اور پرائما کارڈ برآمد کیا گیا۔‘
مقدمے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’پولیس کو خفیہ اطلاع ملی تھی کہ ایک نوجوان شخص جو کالعدم بلوچ لبریشن آرمی اسلم اچھو گروپ کا کارکن ہے، جھل مگسی سے جعفرآباد کی طرف پیدل آرہا ہے۔‘
’سی ٹی ڈی نے اس اطلاع پر موقع پر پہنچ کر اسے گرفتار کر لیا اور اس سے ایک بیگ برآمد کیا گیا جس میں بارودی مواد موجود تھا۔‘
عبدالحفیظ بلوچ کا تعلق خضدار کے علاقے باغبانہ سے ہے۔ وہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں فزکس کے ایم فل کے فائنل ایئر کے طالب علم ہیں۔

 ڈاکٹر رضا باجوئی کا کہنا ہے کہ یہ عرصہ ہمارے والدین اور خاندان پر بہت مشکل سے گزرا۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

ان کے رشتہ دار فاضل یعقوب نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’حفیظ بلوچ پر لگائے گئے الزامات درست نہیں کیونکہ ان پر مقدمہ مارچ میں درج کیا گیا جبکہ وہ آٹھ فروری کو لاپتہ ہوئے تھے اور 11 فروری کو خضدار پولیس تھانہ سٹی میں ان کی گمشدگی کی رپورٹ بھی درج ہوئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’عبدالحفیظ سردیوں کی چھٹیوں میں اسلام آباد سے خضدار آئے ہوئے تھے جہاں وہ ایک تعلیمی ادارے میں بچوں کو پڑھارہے تھے۔ آٹھ فروری کو انہیں 40 سے زائد طالب علموں اور کچھ اساتذہ کے سامنے اٹھایا گیا۔‘
فاضل یعقوب کا کہنا تھا کہ خضدار اور اسلام آباد میں حفیظ بلوچ کی بازیابی کے لیے احتجاج بھی کیا گیا۔ اسلام آباد میں ان کے ساتھی طلبہ نے تقریباً ایک ماہ تک احتجاجی کیمپ لگایا۔
عبدالحفیظ بلوچ کے بھائی ڈاکٹر رضا باجوئی کا کہنا ہے کہ ’وہ بس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بھائی کے منظر عام پر آنے پر ہمارا پورا خاندان خوش ہے۔ یہ عرصہ ہمارے والدین اور خاندان پر بہت مشکل سے گزرا۔ ہم سب اذیت میں مبتلا رہے۔‘
خیال رہے کہ حفیظ بلوچ کی  بازیابی کے لیے اسلام آباد میں احتجاج کے دوران طلبہ اور پولیس کے درمیان تصادم کے بعد وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب ایڈووکیٹ اور بلوچ طلبہ پر مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا جو بعد ازاں واپس لے لیا گیا۔
حفیظ بلوچ کی بازیابی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر کی گئی تھی۔

اسلام آباد میں حفیظ بلوچ کے ساتھی طلبہ نے تقریباً ایک ماہ تک احتجاجی کیمپ لگایا۔ (فوٹو: ٹوئٹر بلوچ سٹوڈنٹس کونسل)

بدھ کو سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ جمعرات کو بلوچ طلبہ کی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سے ملاقات کروا کے ان کی شکایات سنیں اور جمعے تک رپورٹ عدالت میں جمع کروائیں۔
بلوچ طلبہ کی جانب سے پروفائلنگ اور ہراسانی کی شکایات پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’اگر کسی نے بلوچ طلبہ کو ہراساں کیا تو وفاقی وزیر داخلہ براہ راست اس کے ذمہ دار ہوں گے۔‘

شیئر: