Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’چاہتے ہیں پارلیمنٹ کامیاب ہو، قومی مفاد دیکھ کر ہی آگے چلیں گے‘

ڈپٹی سپیکر کے وکیل نعیم بخاری اور اٹارنی جنرل آج عدالت میں دلائل دیں گے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی سپریم کورٹ میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے حوالے سے از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔
جمعرات کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ 
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ ’رات کو نجی ہوٹل میں تمام ایم پی ایز نے حمزہ شہباز کو وزیراعلٰی بنا دیا، سابق گورنر آج حمزہ شہباز سے باغ جناح میں حلف لیں گے۔‘
جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’پنجاب کے حوالے سے کوئی حکم نہیں دیں گے، پنجاب کا معاملہ ہائیکورٹ میں لے کر جائیں۔ قومی اسمبلی کے کیس سے توجہ نہیں ہٹانا چاہتے۔‘
صدر مملکت عارف علوی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیراعظم بلاشبہ عوام کے نمائندے ہیں۔‘
جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ میں آئین کی خلاف ورزی ہوتی رہے گی اسے تحفظ ہوگا؟ کیا عدالت آئین کی محافظ نہیں ہے؟
جس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہو سکتا ہے، پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ججز کے آپس میں اختلاف ہوں تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرسکتی ویسے عدلیہ بھی نہیں کرسکتی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل کا عمل پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ حکومت کی تشکیل اور اسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔ وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بیرسٹر علی ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے جس فیصلے کا حوالہ دیا ہے وہ حلف سے متعلق ہے، یہاں معاملہ حلف لینے کا نہیں رولنگ کا ہے۔ کہیں تو لکیر کھینچنا پڑے گی۔‘

عدالت نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر کو 28 مارچ کو ووٹنگ پر کوئی مسئلہ نہیں تھا، ووٹنگ کے دن رولنگ آئی۔ (فوٹو: اردو نیوز)

صدر مملکت کے وکیل علی ظفر نے جونیجو کیس کے فیصلے کا حوالہ دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہے؟‘
انہوں نے استفسار کیا کہ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے تو آئینی بحران کہاں ہے؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’میری بھی یہی گزارش ہے کہ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں۔‘
عدالت نے پوچھا کہ کیا منحرف اراکین کے باوجود تحریک انصاف اکثریتی جماعت ہے۔ اگر اکثریتی جماعت سسٹم سے آؤٹ ہو جائے تو کیا ہوگا؟
بیرسٹر علی ظفر نے موقف اپنایا کہ سیاسی معاملے کا جواب صدر کے وکیل کے طوپر پر نہیں دے سکتا۔
بیرسٹر علی ظفر کے دلائل ختم ہونے کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے وکیل امیتیاز صدیقی نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی ہے، اگر کسی دوسرے کے پاس اکثریت ہے تو حکومت الیکشن کا اعلان کر دے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کرانے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔
وزیراعظم کے وکیل امتیاز صدیقی نے عدالت کے روبرو موقف اپنایا کہ عدالت نے ماضی میں بھی پارلیمان کی کارروائی میں مداخلت نہیں کی۔
جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت نے قومی مفاد کو دیکھنا ہے۔ انتخابات کی کال دے کر 90 دن کے لیے ملک کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔
عدالت نے وزیراعظم کے وکیل سے استفسار کیا کہ ’درخواست گزاروں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ لیو گرانٹ ہونے کے بعد رولنگ نہیں آ سکتی، اس معاملے پر آپ کیا کہیں گے؟‘
وزیراعظم کے وکیل نے بتایا کہ اپوزیشن نے ڈپٹی سپیکر کی صدارت پر اعتراض نہیں کیا تھا، ڈپٹی سپیکر نے اپنے ذہن کے مطابق جو بہتر سمجھا وہ فیصلہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمان کے اجلاس میں ڈپٹی سپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پر وہ عدالت کو جوابدہ نہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے باور کرایا کہ ’قانون یہی ہے کہ پارلیمانی کارروائی کے استحقاق کا فیصلہ عدالت کرے گی۔ عدالت جائزہ لے گی کہ کس حد تک کارروائی کو استحقاق حاصل ہے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ کیا ڈپٹی سپیکر کے پاس کوئی مواد دستیاب تھا جس کی بنیاد پر رولنگ دی؟ کیا ڈپٹی سپیکر کی رولنگ نیک نیتی پر مبنی تھی؟

نعیم بخاری نے موقف اپنایا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر سپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے (فوٹو: اے پی پی)

عدالت نے یہ بھی پوچھا کہ ڈپٹی سپیکر کے سامنے قومی سلامتی کمیٹی کے میٹنگ منٹس کب رکھے گئے؟
ان سوالوں کے جواب میں وزیراعظم کے وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر کے معاملے کے حوالے سے انہیں کچھ معلوم نہیں۔
چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جو آپ کو نہیں معلوم اس پر بات نہ کریں۔
عدالت نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر کو 28 مارچ کو ووٹنگ پر کوئی مسئلہ نہیں تھا، ووٹنگ کے دن رولنگ آئی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سپیکر نے تحریک عدم اعتماد 28 مارچ کو کیوں مسترد نہیں کی؟
جس پر وزیراعظم کے وکیل نے بتایا کہ اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو ایوان ڈپٹی سپیکر کی رولنگ ختم کر سکتا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم نے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمبلی تحلیل کی۔
قومی اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد سمیت ہر موقع پر لیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر سپیکر پوائنٹ آف آرڈر مسترد کر دیتا کیا عدالت تب بھی مداخلت کرتی؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا زیرالتواء تحریک عدم اعتماد پوائنٹ آف آرڈر پر مسترد ہو سکتی ہے؟ جس پر نعیم بخاری نے جواب دیا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر سپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ پہلے کبھی ایسا ہوا نہیں لیکن سپیکر کا اختیار ضرور ہے۔
ڈپٹی سپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے موقف اپنایا کہ نئے انتخابات کا اعلان ہوچکا، اب معاملہ عوام کے پاس ہے۔ سپریم کورٹ کو اب یہ معاملہ نہیں دیکھنا چاہیے۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہونے کے بعد نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری کا مطلب یہ نہیں کہ مسترد نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے کہا کہ عدالت بھی درخواستیں سماعت کے لیے منظور کرکے بعد میں خارج کرتی ہے، اسمبلی کارروائی شروع ہوتے ہی فواد چوہدری نے پوائنٹ آف آرڈر مانگ لیا تھا۔
نعیم بخاری کے بقول تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ شروع ہوجاتی تو پوائنٹ آف آرڈر نہیں لیا جا سکتا تھا۔

عدالت نے کہا کہ وزیراعظم نے آرٹیکل 58 کی حدود کو توڑا اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ (فوٹو: روئٹرز)

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ موشن اور تحریک میں کیا فرق ہے؟ جس پر ڈپٹی سپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے بتایا کہ موشن اور تحریک کے الفاظ ایک ہی اصطلاح میں استعمال ہوتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا اسمبلی رولز کا سہارا لے کر آئینی عمل کو روکا جا سکتا ہے؟ کیا سپیکر آئینی عمل سے انحراف کر سکتا ہے؟
نعیم بخاری نے جواب دیا کہ تمام اپوزیشن اراکین نے کہا سوال نہیں پوچھنے صرف ووٹنگ کرائیں۔ اس شور شرابے میں ڈپٹی سپیکر نے اجلاس ملتوی کر دیا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی کو خط پر بریفننگ دی گئی۔ ریکارڈ کے مطابق پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی میں 11 لوگ شریک ہوئے تھے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ پارلیمانی کمیٹی کو بریفننگ کس نے دی تھی؟ پارلیمانی کمیٹی کو بریفننگ دینے والوں کے نام میٹنگ منٹس میں شامل نہیں۔
سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے میٹنگ منٹس عدالت میں پیش کر دیے۔
عدالت نے نعیم بخاری سے سوال کیا کہ کیا وزیر خارجہ پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں موجود تھے؟ وزیر خارجہ کے دستخط میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آ رہے۔
انہوں نے کہا کہ کیا وزیر خارجہ کو اجلاس میں نہیں ہونا چاہیے تھا؟ معید یوسف کا نام بھی میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آ رہا۔
نعیم بخاری نے کہا کہ وزیر خارجہ کو پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں ہونا چاہیے تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر رولنگ کی بجائے اپوزیشن سے جواب نہیں لینا چاہیے تھا؟ جس پر نعیم بخاری نے بتایا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر بحث نہیں ہوتی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ رولنگ ڈپٹی سپیکر نے دی، رولنگ پر دستخط سپیکر کے ہیں ڈپٹی اسپیکر کے دستخط کدھر ہیں؟

ڈپٹی سپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے میٹنگ منٹس عدالت میں پیش کر دیے (فوٹو: نعیم بخاری ٹوئٹر)

انہوں نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی میٹنگ منٹس میں ڈپٹی سپیکر کی موجودگی ظاہر نہیں ہوتی۔
ڈپٹی سپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے موقف اپنایا کہ جو دستاویز پیش کی ہے وہ شاید اصلی نہیں ہے۔
جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر نے رولنگ کے اختتام سے پہلے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا نام پڑھا،فواد چودھری نے عدم اعتماد کی آئینی حیثیت پر رولنگ مانگی۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا عوامی نمائندوں کی مرضی کے خلاف رولنگ دینا پارلیمانی کارروائی سے باہر نہیں؟
جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیے کہ ایسا لگتا ہے ڈپٹی سپیکر کو لکھا ہوا ملا کہ یہ پڑھ دو۔
نعیم بخاری نے بتایا کہ پارلیمان کے اندر جو بھی ہو اسے آئینی تحفظ حاصل ہوگا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں اٹھائے گئے نکات پارلیمانی کارروائی سے باہر نہیں تھے؟
جس پر انہوں نے موقف اپنایا کہ ’حتمی فیصلہ عدالت کا ہوگا، ہمارا موقف ہے کہ رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔‘
عدالت نے استفسار کیا کہ اگر اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو متاثرہ ارکان کے پاس داد رسی کا طریقہ کار کیا تھا؟ کیا ارکان نئی عدم اعتماد لا سکتے تھے؟
نعیم بخاری نے بتایا کہ سپیکر نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کی توثیق کی۔
جسٹس جمال مندومیل نے نعیم بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی آئینی خلاف ورزی ہے؟
جس پر ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے فیصلہ کرنا ہے کس حد تک پارلیمانی کارروائی میں مداخلت کرے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا یہ آپ کا آخری کیس ہے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ اگر آپ کی خواہش ہے تو مجھے منظور ہے۔
جسٹس جمال خان نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں آپ اگلے کیس میں بھی دلائل دیں۔
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی میٹنگ کی تفصیل کھلی عدالت میں نہیں دے سکوں گا۔ ’قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں انتہائی حساس نوعیت کے معاملات پر بریفننگ دی گئی۔‘
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وہ قومی سلامتی کمیٹی پر ان کیمرہ سماعت میں بریفنگ دینے پر تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سب سے بڑے سٹیک ہولڈر ہیں اس لیے اسمبلی توڑنے کا اختیار بھی انہی کے پاس ہے، اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے وزیراعظم کو وجوہات بتانا ضروری نہیں۔
اٹارنی جنرل کے بقول تحریک عدم اعتماد پر ووٹ ڈالنا کسی رکن کا بنیادی حق نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ رولز سے مشروط ہے؟
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد سمیت تمام کارروائی رولز کے مطابق ہی ہوتی ہے۔ پارلیمانی کارروائی کا کس حد تک جائزہ لیا جا سکتا ہے عدالت فیصلہ کرے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر سپیکر کم ووٹ لینے والے کے وزیراعظم بننے کا اعلان کرے تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک 28 مارچ کو ہی ختم ہوگئی تھی۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سپیکر ایوان کا نگران ہے، وہ صرف اپنی ذاتی تسکین کے لیے نہیں بیٹھتا۔ ’سپیکر ایسا تو نہیں کر سکتا کہ اپنی رائے دے باقی ممبران کو گڈ بائے کہہ دے۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر لیو گوانٹ کرتے ہوئے کوئی بنیاد بتانا ہوتی ہے؟
جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کی کوئی بنیاد بتانا ضروری نہیں۔
انہوں نے موقف اپنایا کہ ’آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ اکثریت مخالفت کرے تو تحریک مسترد ہوگی۔
چیف جسٹس نے نشاندہی کی کہ آرٹیکل 55 کے مطابق اسمبلی میں تمام فیصلے ہاؤس میں موجود اراکین کی اکثریت سے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ‘ایک بات تو نظر آ رہی ہے رولنگ غلط ہے، دیکھنا ہے اب  اس سے آگے کیا ہوگا۔ قومی مفاد دیکھ کر ہی آگے چلیں گے۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ چاہتے ہیں پارلیمنٹ کامیاب ہو اور کام کرے، آج فیصلہ سنائیں گے۔

شیئر: