Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دیکھتے ہی دیکھتے اقتدار کی کرسیاں بدل گئیں

ایاز صادق نے شہباز شریف کو ایک بار وزیراعظم نواز شریف بھی کہہ کر پکارا۔ (فوٹو: فیس بک شہباز شریف)
سوموار کو قومی اسمبلی بدلی بدلی سی تھی۔ پارلیمنٹ ہاؤس کی لابیوں سے ہی پتا چل رہا تھا کہ اقتدار کا سورج کہیں طلوع ہو رہا ہے اور کہیں غروب۔ اپوزیشن کے چیمبرز میں مہمانوں کا ہجوم تھا اور غیر روایتی چہل پہل تھی جبکہ حکومتی چیمبرز خالی تھے۔
ہاں سابق وزیراعظم عمران خان اپنی پارلیمانی پارٹی اجلاس کی قیادت کے بعد باہر آئے تو ہر کوئی ان سے بات کرنا چاہتا تھا مگر انہوں نے وہاں زیادہ بات نہیں کی۔ تاہم سابق وزرا آج گذشتہ رات کے کامیاب احتجاج کے بعد پراعتماد لگ رہے تھے اور میڈیا سے بات کرتے ہوئے جوش و خروش سے  مستعفی ہو کرعوام میں جانے کی نوید سنا رہے تھے۔
قائد حزب اختلاف شہباز شریف جب بلڈنگ میں داخل ہوئے تو ان کی سیکورٹی انتہائی سخت تھی اور بدن بولی سے وزیراعظم والا اعتماد جھلک رہا تھا۔ وہ پارلیمانی پارٹی اجلاس کے بعد ایوان میں پہنچے تو وزیراعظم شہباز شریف کے نعرے بلند ہوئے۔
اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن اور حکومت کے بنچز پر بھرپور حاضری تھی تاہم سابق وزیراعظم عمران خان ایوان میں نہیں آئے۔  ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے روایت سے ہٹ کر کافی لمبی اور پرجوش بات کی جس میں ایک بار پھر غیر ملکی سازش کا تذکرہ کیا۔
پھر وزیرخارجہ نے طویل تقریر کی اور استعفوں اور اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کرکے چلے گئے۔ جاتے جاتے حکومتی ارکان نے  عمران خان کے حق میں خوب نعرے بازی کی۔
اس کے ساتھ ہی قاسم سوری بھی کرسی صدارت چھوڑ کر چلے گئے اور ایاز صادق نے منصب سنبھال لیا۔
مہمانوں کی گیلری میں سب کی توجہ کا مرکز مریم نواز شریف بنی ہوئی تھیں جو اپنے شوہر کیپٹن صفدر کے ساتھ وہاں موجود تھیں۔
مریم نواز پارلیمنٹ ہاؤس میں کافی کم دکھائی دیتی  ہیں۔ کچھ دیر بعد ان کے کزن اور پنجاب کے وزارت اعلی کے امیدوار حمزہ شہباز بھی پہنچ کر ان کے ساتھ براجمان ہو گئے۔
ایوان میں مہمانوں کی گیلری سے وقفے وقفے سے نعرے بلند ہوتے رہے۔ کبھی ’وزیراعظم نواز شریف‘ تو کبھی ’ایک زرداری سب‘ پر بھاری اور کبھی
تیری آواز میری آواز مریم نواز‘ ۔۔ کچھ لوگوں نے حمزہ شہباز اور مولانا فضل الرحمن کے لیے بھی نعرے لگائے۔

شہباز شریف وزیراعظم کی کرسی کی طرف بڑھے تو ایوان نعروں سے گونج اٹھا (فوٹو: اے ایف پی)

مگر صرف ایک بار کیپٹن صفدر کے لیے نعرہ بلند ہوا تو سپیکر کی کرسی پر بیٹھے ایاز صادق نے بھی جملہ کسا کہ ’آپ کو اب کیپٹن صفدر کی یاد آئی ہے‘۔ اسپر ایوان اور گیلیریوں سے زوردار قہقہ بلند ہوا۔
ایاز صادق نے شہباز شریف کو ایک بار میاں میاں نواز شریف بھی کہہ کر پکارا پھر فورا بولے معذرت چاہتا ہوں نواز شریف دل و دماغ میں رہتے ہیں اس لیے ان کا نام ہی منہ سے نکل جاتا ہے۔
ووٹنگ میں جب شہباز شریف کی 174 ووٹوں سے کامیابی کا اعلان ہوا تو مریم نواز اپنی نشست سے کھڑی ہو گئیں۔ انہوں نے نواز شریف کی تصویر ہاتھ میں اٹھائی ہوئی تھی۔اعلان ہوتے ہی شہباز شریف شکریہ ادا کرنے آصف زرداری اور دیگر اتحادیوں کی طرف گئے۔
شہباز شریف کی کامیابی کے بعد ایاز صادق نے انہیں وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنے کا کہا تو ایوان نعروں سے گونج اٹھا۔ تھوڑی دیر بعد آصف زردای اپوزیشن بنچز سے اٹھ کر شہباز شریف کے ساتھ بیٹھ گئے۔پھر کیا تھا ایک ایک کرکے اپوزیشن رہنما اپنی کرسیاں بدلنا شروع ہو گئے۔
اس طرح دیکھتے ہی دیکتھے کل کی اپوزیشن آج کی حکومت بن گئی ۔حکومت کی صف اول میں شہباز شریف کے ساتھ بڑے اتحادی پیپلز پارٹی کے  آصف زرداری بیٹھے پھر بلاول بھٹو، اور ان کے ساتھ جمیعت علمائے اسلام کے مولانا اسد محمود اور ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی۔ آخر میں باپ پارٹی کے خالد مگسی تھے۔

اجلاس کے دوران مریم نواز نے اپنے والد نواز شریف کی تصویر اٹھا رکھی تھی (فوٹو: ٹوئٹر، مریم نواز)

شہباز شریف کی تقریر شروع ہوئی تو انہوں نے کہا کہ کوئی غدار نہیں ہے اور اس مبینہ دھمکی آمیز خط پر پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے گا جس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس ٓائی بھی ہوں گے اور اگر اس کی تحقیقات میں سازش میں انکی شمولیت ثابت ہوئی تو وہ استعفی دے دیں گے۔
اس کے بعد انہوں نے سب اتحادیوں کا شکریہ ادا کیا اور ملکی معیشت ، خارجہ پالیسی اور سیاست کے حوالے سے اپنے اقدامات اور خیالات کا اظہار کیا۔ انکی تقریر کو پریس گیلری میں سراہا گیا کہ اس میں الزامات، خود ستائشی یا نفرت انگیزی کے بجائے اتحاد اور عملی اقدامات کا ذکر تھا۔

قائم مقام سپیکر قاسم سوری کے بعد سردار ایاز صادق نے سپیکر کی نشست سنبھالی (فوٹو: ٹوئٹر)

ان کی تقریر ختم ہوئی تو پینل آف چئیرمین کے ایاز صادق نے حسب روایت دوسری بڑی پارٹی کے پارلیمانی رہنما بلاول بھٹو کو اظہار خیال کی دعوت دی مگر جونہی بلاول تقریر کرنے کے لیے اٹھنے لگے تو اسی لمحے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری صدارت کی کرسی پر آگئے تو قواعد کے مطابق ایاز صادق کو اٹھ کر کرسی انہیں دینا پڑی۔ مگر قاسم سوری نے آتے ہی اجلاس 16 اپریل تک ملتوی کر دیا۔۔
قواعد کے مطابق سپیکر یا ڈپٹی سپیکر کا کرسی صدارت پر پہلا حق ہوتا ہے اور ان کے کرسی پر پہنچنے کی صورت میں پینل آف چئیرمین کے رکن کو اٹھنا پڑتا ہے مگر عام طور پر ان کے آنے سے پہلے سٹاف ممبر آ کر اطلاع دیتا ہے مگر آج قاسم سوری خود ہی ایازصادق کے سر پر پہنچ گئے۔
پریس گیلری میں موجود ایک سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ قاسم سوری کو اس طرح اجلاس ملتوی کرکے بلاول بھٹو اور ایاز صادق کو شرمندہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔

شیئر: