Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت کو انتقامی کارروائی نہیں کرنے دیں گے: اسلام آباد ہائی کورٹ

چیف جسٹس نے شہزاد اکبر اور شہباز گل کے نام سٹاپ لسٹ سے نکالنے کا حکم دے دیا (فائل فوٹو: اے پی پی )
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’حکومت کو انتقامی کارروائی نہیں کرنے دیں گے۔ یہ عدالت اس بات کی بالکل بھی اجازت نہیں دے گی۔‘ 
چیف جسٹس اطہر من اللہ بدھ کو سابق وزیراعظم عمران خان کے مشیر اور معاون خصوصی شہزاد اکبر اور شہباز گل کا نام سٹاپ لسٹ سے نکالنے کی درخواست پر سماعت کر رہے تھے۔
عدالت نے ایف آئی اے کو دونوں رہنماؤں کا نام سٹاپ لسٹ سے فوری طور پر نکالنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے اور سیکرٹری داخلہ کو 18 اپریل تک رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں شہباز گل اور شہزاد اکبر کے وکلا پیش ہوئے جبکہ ایف آئی اے کے مجاز افسر عدالت میں موجود تھے۔
درخواست گزاروں کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم نامے کے باوجود اس پر عمل نہیں ہوا۔ ابھی تک شہباز گل اور شہزاد اکبر کا نام سٹاپ لسٹ میں موجود ہے۔
چیف جسٹس کے استفسار پر ایف آئی اے حکام نے عدالت کو بتایا کہ ’عدالت کا حکم تاخیر سے ملا، افسران تراویح پڑھنے چلے گئے تھے جب عدالتی حکم موصول ہوا تھا۔‘
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے، ایف آئی اے مسلسل اس عدالت میں پیش ہوتی رہی ہے۔ عدالت حکومت کو انتقامی کارروائی کرنے نہیں دے گی۔ ہم یہ اجازت بالکل نہیں دے سکتے۔‘
عدالت کے استفسار پر ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ ایف آئی اے اسلام آباد زون سے درخواست موصول ہوئی تھیں، دو انکوائریز درخواست گزاروں کے خلاف رجسٹرڈ کی گئی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ایف آئی اے اتنی آزاد کب سے ہوگئی کہ حکومتی افراد کے خلاف انکوائری کا آغاز کر دیا۔‘  
ڈائریکٹر لاء نے عدالت کو بتایا کہ ڈائریکٹر ایف آئی اے کا خط آیا تھا۔ ملک میں غیرمعمولی صورتحال تھی، اس لیے نام سٹاپ لسٹ میں ڈالے گئے۔ 
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’اتنی کیا غیرمعمولی صورتحال تھی۔ کیا مارشل لا لگ گیا تھا؟ سٹاپ لسٹ میں نام ڈالنے کے لیے کون سا قانون ہے؟ 
عدالت نے شہزاد اکبر اور شہباز گل کے نام سٹاپ لسٹ سے فوری طور پر نکالنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی۔

شیئر: