Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ شامل نہیں ہے: ڈی جی آئی ایس پی آر

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ ’ریٹائڑد فوجی افسران کی فیک آڈیوز چلا کر ملک میں انتشار پھیلایا جا رہا ہے۔‘
جمعرات کو پریس بریفنگ سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ’افواج پاکستان کی قیادت کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلائی جا رہی ہے، یہ مہم نہ پہلے کامیاب ہوئی اور نہ آئندہ ہونے دیں گے۔‘
میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ’افواہوں کی بنیاد پر کردار کشی کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔‘
’عوام کی حمایت کے بغیر قومی سلامتی کا تصور بے معنی ہے‘
دو روز قبل آرمی چیف کی زیر صدارت فارمیشن کمانڈرز کانفرنس سے متعلق انہوں نے بتایا کہ ’وہاں موجود اعلٰی قیادت نے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے پر مکمل اتفاق کیا اور اسے درست سمت میں بہترین قدم قرار دیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سب نے اتفاق کیا کہ جمہوریت، اداروں کی مضبوطی، قانون کی بالادستی اور سب اداروں کا آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہی بہترین ملکی مفاد کی ضمانت ہے۔‘
’عوام کی حمایت مسلح افواج کی طاقت کا منبع ہے۔ اس کے بغیر قومی سلامتی کا تصور بے معنی ہے۔ اس لیے کوئی بھی دانستہ یا نہ دانستہ کوشش جو عوام اور افواج پاکستان کے درمیان دراڑ ڈالنے کا باعث بنے وسیع تر قومی مفاد کے منافی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’کانفرنس میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ تعمیری تنقید مناسب ہے لیکن افواہوں کی بنیاد ہر سازشوں کے تانے بانے جوڑنا اور بے بنیاد کردار کشی کرنا کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق سیاسی ڈیڈلاک کے دوران وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف سے رابطہ کیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’اس حوالے سے افواج پاکستان اور اس کی قیادت کے خلاف منظم اور بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈا مہم چلائی جا رہی ہے حتیٰ کہ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے ریٹائرڈ فوجی افسران کے فیک آڈیو پیغامات چلائے جا رہے ہیں تاکہ عوام اور افواج پاکستان کے درمیان انتشار پھیلایا جائے۔ جو کام دشمن سات دہائیوں میں نہیں کرسکا وہ ہم آئندہ بھی نہیں ہونے دیں گے۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’عوام اور سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں۔ ہم اس سے باہر رہنا چاہتے ہیں، ہمیں اس بیانیے سے باہر رکھیں۔‘
غیر ملکی مراسلہ اور بیرونی سازش
انہوں نے غیر ملکی مراسلے کے حوالے سے کہا کہ ’نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں بڑے واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ کیا تھا اور کیا نہیں ہے۔ اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے حساس ادارے ایسے خطرات اور سازشوں کے خلاف دن رات کام کر رہے ہیں، اگر کسی نے پاکستان کے خلاف کوئی بھی سازش کرنے کی کوشش کی تو ہم اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔‘
’اگر وزیراعظم شہباز شریف نے پارلیمان کی قومی سلامتی کی کمیٹی کا اجلاس بلایا تو مسلح افواج کے سربراہان وہاں جا کر بھی اپنا وہی مؤقف دیں گے جو انہوں نے سابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں رکھا۔‘
اردو نیوز کے نامہ نگار وسیم عباسی کے مراسلے سے متعلق امریکی سفارت کار کو بلا کر ’ڈی مارش‘ پر سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’ڈی مارش دیے جاتے ہیں۔ ڈی مارش صرف سازش پر تو نہیں دیے جاتے۔ ڈی مارش کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔‘
’جس طرح اس اعلامیے میں لکھا ہوا ہے کہ غیر سفارتی زبان استعمال کی گئی ہے۔ اس اعلامیے میں لکھا ہوا ہے کہ جو بات چیت کی گئی ہے وہ مداخلت کے مترادف ہے۔ تو اس کے اوپر ڈی مارش دیا جاتا ہے، یہ سفارتی طریقہ ہے اور یہی وہ الفاظ ہیں جن کے اوپر اتفاق کیا گیا اور اس کے مطابق ڈی مارش دیا۔‘

 میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں ’سازش‘ کا لفظ نہیں ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’کوئی آپشن اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے نہیں رکھا گیا‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ’سیاسی ڈیڈلاک کے دوران اسٹیبلشمنٹ نے کوئی آپشنز وزیراعظم کے سامنے نہیں رکھے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم آفس کی جانب سے آرمی چیف سے رابطہ کیا گیا تھا کہ جب یہ ڈیڈلاک برقرار تھا کہ اس میں بیچ بچاؤ کی بات کریں۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت آپس میں بات چیت کرنے پر تیار نہیں تھی۔‘
’آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وزیراعظم آفس گئے اور وہاں موجود وزیراعظم کے دیگر رفقا کے ساتھ بھی بات کی اور وہیں پر یہ تین منظرنامے زیربحث آئے۔‘
’پہلا یہ تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک معمول کے مطابق قومی اسمبلی میں پیش ہو، دوسرا یہ کہ وزیراعظم مستعفی ہوجائیں اور تیسرا یہ کہ تحریک عدم اعتماد واپس لی جائے اور وزیراعظم اسبلی تحلیل کر کے انتخابات کا اعلان کریں۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق ’وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ انہیں تیسرا آپشن قابل قبول ہے اور آپ ہماری طرف یہ بات آگے پہنچا دیں۔ آرمی چیف نے یہ گزارش پی ڈی ایم کے سامنے رکھی اور اس پر بحث کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم اپنے پلان کے مطابق معاملات آگے چلائیں گے۔‘
’آرمی چیف نے توسیع نہیں مانگی اور نہ ہی لیں گے‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نہ تو مدت میں توسیع طلب کررہے ہیں اور نہ ہی قبول کریں گے، آرمی چیف اپنی مدت پوری کر کے رواں سال 29 نومبر کو ریٹائر ہوجائیں گے۔‘
’پاکستان کا مستقبل جمہوریت میں ہی ہے اور کبھی بھی مارشل لا نہیں لگے گا۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق ’فوج کی قیادت کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سیاسی جماعتوں کی جانب سے آرمی چیف پر تنقید سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ‘آرمی چیف ایک ادارے کے سربراہ ہیں اور اگر ادارے کے سربراہ پر بات کی جا رہی ہے تو حکومت وقت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اقدامات اٹھائے۔ ہماری تو زبان نہیں ہے اور نہ ہم کسی ٹی وی چینل ہر جا کر ترکی بہ ترکی جواب دے سکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’فوج یونٹی آف کمانڈ کے تحت چلتی ہے، جس سمت میں آرمی چیف دیکھتا ہے اسی طرف سات لاکھ فوجی بھی دیکھتے ہیں۔ فوج کے رینکس میں کسی قسم کی کوئی تقسیم نہیں ہے اور پوری فوج اپنی قیادت پر فخر کرتی ہے۔‘
وزیراعظم شہباز شریف کی تقریبِ حلف برداری میں آرمی چیف کی شرکت نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طبیعت ناساز ہونے کہ وجہ سے انہوں نے تقریب میں شرکت نہیں کی تھی اور اس دن وہ دفتر بھی نہیں آئے تھے۔‘

شیئر: